عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے حوالے سے کیس میں دوسرے روز بھارتی دلائل کے جواب میں پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان کے دلائل

282

اسلام آباد، 19 فروری ( اے پی پی): پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کلبھوشن نے اپنے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے پاکستان میں جاسوسی کے ضمن میں 17 مرتبہ پاکستان کے دورے کئے۔ منگل کو عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے کیس میں دوسرے روز بھارتی دلائل کے جواب میں پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا پرامن حل چاہتا ہے، ہمسایہ ملک بھارت کی مداخلت سے پاکستان کو آج تک 74 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ پاکستان میں ہونے والے مختلف دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی بھارت میں کی جاتی رہی ہے، اس تناظر میں پاکستان میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا ہے اور عدالت میں پیش کیا گیا کلبھوشن یادیو کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی جاسوس نے کسی دباﺅ کے بغیر بیان دے کر اپنے جاسوس ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ سماعت کے دوران 15 رکنی عالمی عدالت انصاف کے روبرو اپنے دلائل میں پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے بھارتی وکیل کے دلائل کے حوالہ سے کہا کہ بھارتی وکیل نے اس موقع کو ضائع کر دیا ہے کہ بھارت اپنے حاضر سروس نیوی کمانڈر کلبھوشن یادیو کی جانب سے پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کے حوالہ سے اٹھائے گئے بنیادی سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن یادیو کی رہائی اور واپس بھیجنے کا مطالبہ بے مقصد اور سراسر نامناسب ہے۔ انہوں نے بھارت کا مطالبہ احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت بہتر تعلقات سے گریزاں اور پاکستان میں کلبھوشن یادیو کے ذریعے دہشت گردی کراتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں روس اور چین کے بعض مقدمات کا بھی حوالہ دیا جہاں ریاستیں جاسوسی کے حوالہ سے خصوصی معاملات کے طور پر دیکھتی آئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت 1982ءمیں قونصلر رسائی کے معاہدہ پر رضامند ہو گئے تھے جس میں 2008ءمیں تبدیلی کرتے ہوئے جاسوسی سے متعلق کیس میں قونصلر رسائی کے آپشن پر غور کی بات کی گئی۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ بھارت کی طرف سے نیوی افسر کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان جاسوسی کیلئے بھیجنا ویانا کنونشن کے آرٹیکل 5 اے کی خلاف ورزی ہے اور ایسی صورت میں قونصلر رسائی دینا عالمی قوانین کی یکسر خلاف ورزی ہو گی۔ بھارت کمزور دیوار پر بیٹھا اور سچائی کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا ہے، اس کیس میں ایک طرف بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر چکا ہے۔ بھارت نے آج تک کلبھوشن کی بھارتی شہریت ہونے کا اعتراف تک نہیں کیا تو وہ کس حوالے سے کلبھوشن تک قونصل رسائی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ سماعت کے دوران پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے بھارتی صحافی کرن تھاپر اور پراون سوامی کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیا اور بتایا کہ ویانا کنونشن کے تحت اس کیس میں ہائی کورٹس سے رجوع کرنے کا فورم موجود ہے جبکہ 47 سال کی عمر میں کلبھوشن یادیو کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں دعویٰ کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھارت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ پکڑا گیا جاسوس حسین مبارک پٹیل ہے یا کلبھوشن یادیو اور اس کی گرفتاری کے بعد بھارت نے اس معاملہ پر اب تک کیا تحقیقات کی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کلبھوشن یادیو کے پاس اسلامی نام کے حوالے سے کیوں پاسپورٹ موجود تھا اور کلبھوشن کو ایران سے پاکستان اغواءکرنے کے الزام کے حوالے سے اس کے پاس کیا ثبوت ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، اس کے کردار اور غلط بیانی پر بھارتی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیا جائے تاہم اگر دوسری طرف عالمی عدالت انصاف ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کو دیکھتے ہوئے قونصلر رسائی کے حق کو مسترد کرتی ہے تو ایسی صورت میں پاکستان میں ہائیکورٹ سے کلبھوشن یادیو یا ان کے خاندان کے لوگ رجوع کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر بھارتی وکیل بریش سالوے نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے بارے میں کیس مبالغہ آمیز معلومات پر مبنی ہے، اس لئے عالمی عدالت انصاف ان کی رہائی کا حکم جاری کرے۔ کلبھوشن یادیو کیس میں پاکستان اور بھارتی وکلاءکے دلائل مکمل ہونے کے بعد جرح کا آغاز ہوگا جس میں (آج) بدھ کو بھارتی وکیل جبکہ 21 فروری (جمعرات) کو پاکستانی وکیل بحث و جرح کریں گے۔

اے پی پی /عمار برلاس/فاروق

وی این ایس