کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ کی پکار

392

اسلام آباد، 04 فروری (اے پی پی): آٹھ جولائی دو ہزار سولہ،بھارتی ریاست جموں و کشمیر کے علاقہ کوک رنگ میں مسلح گروپ حزب المجاہدین کے بائیس سالہ رہنما برہان وانی کو قتل کیاگیا۔ اس قتل کے خلاف پورے کشمیر میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاج کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کی نظیرماضی میں نہیں ملتی۔ بھارتی فوج نے احتجاج کا جواب طاقت کے استعمال سے دیا۔ بہت سے لوگ جاں بحق و زخمی ہوئے۔ دو ہزارسولہ کی موسم گرما سے شروع ہونے والا انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ دو ہزار آٹھارہ میں بھی ہر طرح سے جاری رہا۔

اگر چہ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں اس سے پہلے بھی احتجاج کی لہریں اٹھتی رہی ہیں، جیسا کہ اسی اور نوے کے عشرے میں، 2008 اور 2010 میں بھی، لیکن احتجاج کی موجودہ لہر میں ان نوجوانوں، متوسط کشمیریوں اور خواتین کی شرکت بڑھتی جارہی ہے، جو پہلے اس انداز سے سامنے نہیں آئے۔

یہ کسی کشمیری رہنما کا بیان نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی باقاعدہ رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری کے اولین الفاظ ہیں۔ اس رپورٹ کو کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادوں کے بعد اہم ترین دستاویز قرار دیا جارہاہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جموں اور کشمیر کے جن علاقوں میں فوج موجود ہے، وہاں کی خواتین ایک مستقل محاصرہ کی کیفیت میں ہیں۔ وہ گھر میں ہوں یا گھر سے باہر، ان پر نظرلگی ہوتی ہے۔ ہمیں جو تحریری اور زبانی معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق ریاستی ادارے اجتماعی آبروریزی کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح جبری گمشدگی، قتل، تشدد اور ہر طرح کی بدسلوکی جاری ہے۔

پاکستان نے رپورٹ کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔ پاکستان کو آزاد کشمیر میں بین الاقوامی مبصرین کی آمد پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن بھارت کشمیر کے ذکر پر بھی سیخ پا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے جہاں بھارت کو بڑی شرمندگی سے دوچار کیا ہے، وہاں آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کوعالمی ادارے سے نئی امیدیں وابستہ کرنے کی راہ دکھائی ہے۔

اے پی پی/احسان/فرح

وی این ایس اسلام آباد