دلورائے کھنڈرات کو محفوظ کرنے کا کام شروع کردیاگیا ہے۔غلام محمد

414

ملتان ۔ (اے پی پی)راجن پور کے علاقے میں بدھ مت دور کے قدیم آثار کو محفوظ کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔اس منصوبے پر ایک کروڑ73لاکھ روپے لاگت آئے گی۔منصوبے کے تحت راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے سنگم پرواقع دلو رائے کے کھنڈرات کو محفوظ کیاجائے گا۔اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے محکمہ آثارقدیمہ ملتان کے انچارج غلام محمد نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے اس منصوبے کے لیے ایک کروڑ73لاکھ23ہزار روپے کی رقم مختص کی ہے۔اس میں سے ایک کروڑ روپے کے فنڈز جاری کردیئے گئے ہیںاورکام شروع کردیاگیاہے۔انہو​ںنے بتایا کہ ان کھنڈرات کے گرد چاردیواری تعمیر کی جائے گی جس کے لیے کھدائی کا کام تقریباً مکمل ہے اور یہاں سے نوادرات اور قدیم تہذیب کے آثار تلاش کرنے کے لیے کھدائی کا عمل بھی شروع کیاجائے گا۔اس جگہ کو فروری 1964ءمیں تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل کیاگیاتھا اوریہاں سے برآمد ہونےوالی اشیاءاور نوادرات پر تحقیق کی گئی جس کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ یہ علاقہ بدھ مت کے پیروکاروں کاتھا اور یہ پارتھین عہد کے آثارہیں۔یہ پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی بعد مسیح کے زمانے کے آثار ہیں۔480کنال پرواقع اس تاریخی مقام کا بڑا حصہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے جبکہ صرف تین کنال رقبہ تحصیل جام پور میں آتا ہے۔یہ آثار تحصیل جام پور سے ڈھائی میل کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔یہ دوکھنڈرات 100سے150گز کے فاصلے پر ہیں ۔بڑے کھنڈرات 1460x800x15فٹ پر محیط ہیںجواس زمانے کے کسی شہر کے کھنڈرات معلوم ہوتے ہیں جبکہ شمال اورجنوب میں 380فٹ اور 950فٹ کے کھنڈرات بھی موجودہیں جو کسی قلعے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔یہ دونوں آثار مقامی کاشتکاروںکی کھدائی کے نتیجے میں ظاہرہوئے جن سے معلوم ہوا کہ یہ سڑکوں اور مکانوں کے آثارہیں ۔کچی اینٹوں سے بنی ہوئی بعض دیواریں ختم ہوچکی ہیں اور بعض مقامات پر 12فٹ اونچی دیواروں کے آثار موجودہیں۔ان کھنڈرات میں 5×5فٹ سے 15×10فٹ تک کے کمروں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔حکام نے اے پی پی کوبتایا کہ ان آثار کی کئی عشروں کے بعدپہلی مرتبہ کھدائی کی جائے گی ۔دلو رائے کے کھنڈرات سے بڑے پیمانے پر برتن بھی برآمد ہوئے تھے جن پرنقش ونگاربھی تھے۔اس کے علاوہ سجاوٹی سامان ،تیل کے دیئے،چمچموں کے دستے اور پہیے بھی برآمد ہوئے۔یہ تمام اشیاءپارتھین عہد کی ہیںاور بھمبھور،ٹیکسلا اور پیتل کورا(بھارت)سے ملنے والی اشیاءسے مشابہت رکھتی ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہاں سے ملنے والی بعض پختہ اینٹوں پر پتوں اور سورج مکھی کے پھولوں کے نقش ونگار بھی ہیں اور یہ سب اشیاءبدھ مت کے زمانے کی ثقافت اورتہذیب سے مشابہت رکھتی ہے۔دلورائے کھنڈرات سے مٹی کی چھتریوں،سٹوپااور سرخ مٹی سے بنی ہوئی عورتوں کی مورتیاں بھی ملیں ۔ان مورتیوں کواس انداز میں بنایاگیا تھا کہ ان کے سر ڈھانپے ہوئے تھے ،کانوں میں بالیاں تھیں ،دھوتی پہنی ہوئی تھی ور کمنڈلی بھی موجودتھی ۔یہ سب کچھ بدھ مت کی روایات اور مذہب وثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ایک برہمن شہزادے دلو ر ائے کے نام پر ان آثار کو دلورائے کانام دیاگیا۔