اسلام آباد، 24دسمبر (اے پی پی ): سپیکر قومی اسمبلی سر دار ایا ز صادق نے کہا ہے کہ یہ ایک تاریخی مو قع ہے کہ چھ ممالک کے پارلیما نی سر بر اہا ن امن اور خوشحالی سے وا بستگی کا اعادہ کر نے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے اسلا م آبا د میں جمع ہو ئے ہیں انہو ں نے کہا کہ یہ انتہا ئی خو شی کا مو قع ہے جب منتخب نمائندے باہمی احترام ، اعتماد اور دوستی کے ساتھ رہنے سمیت اپنے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ایک عظیم قدم اٹھانے جا رہے ہیں۔
انہو ں نے ان خیا لا ت کا اظہار اسلا می جمہو ریہ پا کستان،افغانستان،چین،ایران،روس اور ترکی کے سپیکر ز کی پہلی کا نفر نس کے افتتاحی اجلا س کے موقع پر خطاب کر تے ہو ئے کیا ۔
سپیکر نے کانفرنس میں شرکت کرنے پر افغانستان ، چین ، ایران ،روس اور ترکی کے اپنے ہم منصبوں کا شکر یہ ادا کر تے ہو ئے کہا کہ قدرت نے ہماری ان چھ اقوام کو ایک خوبصورت جغرافیائی لڑی میں پرودیا ہے اور اسی طرح ہم مشتر کہ ثقافت، تجارت اور تاریخ کے بھی امین ہیں۔ باہمی اعتماد کے باعث ان مما لک میں ہر آزما ئش پر پورا اترنے والے تعلقات پا ئے جا تے ہیں ۔
انہو ں نے کہا کہ کا نفر نس میں شرکت کر نے والے چھ ممالک کرہُ ارض کی کل ا نسانی آبادی کا ۳۰ فیصد ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ چین ، روس اور ایران دنیا کے قدرتی وسائل کے سب سے بڑے ذخائر کے ساتھ سب سے بڑی چھ اقوام میں شامل ہیں جب کہ دنیا کی آدھی کپاس صرف چین اور پاکستان پیدا کرتے ہیں اور افغانستان کے قدرتی وسائل اسے د نیا کا امیر ترین خطہ بنا سکتے ہیں جبکہ تعمیرات کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں مہارت نے ترکی کو دنیا میں درجہ بندی کے اعلیٰ درجوں پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے ہم ایک دوسرے کی مدد اور دوستی کے لئے آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ۔
سپیکر نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سرد جنگ کے بعد دنیا زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ثابت ہوئی ہے اور غیر ریاستی عناصر کے قیام میں لائے جانے کے عمل سے بین الاقوامی سرحدوں اور قوموں کی خود مختاری کی عزت کے معیارات خطرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سال کے دوران دہشتگردی سے دنیا کاکوئی کونہ بھی محفوظ نہیں رہا ہے اور دو لاکھ سے زائد زندگیاں اس کی نذر ہوئی ہیں۔ان حملوں کا شکار ہونیو الے تقریباً آدھے لوگ بدقسمتی سے ہمارے خطے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ منشیات کی غیر قانونی تجارت میں اضافے کی وجہ سے مزید سنگین ہو گیا ہے اور منشیات کی غیر قانونی تجارت سے حاصل ہونے والا دہشت گر دی کی کاروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ مذہبی جنون عالمی دہشت گر دی کی بڑی وجہ گر دانا جاتا ہے تا ہم ، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قوم پر ستی اورظلم وستم نے بھی اس مسئلہ کو مزید سنگین کر دیا ہے ۔
سپیکر نے کہا کہ مشر ق وسطیٰ کے جلتے ہوئے میدانوں سے کشمیر میں بنیادی حق خود ارادیت سے انکار تک ، دنیا انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نبر د آزما ہونے میں ناکام رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس سے متعلق پیدا کیا جانے والا حالیہ اختلاف نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور اس سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کی طر ف ایک قدم ہے بلکہ امن کی کاوشوں کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ چیلنج ہیں جن سے ہماری اقوام کو براہ راست خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے ہم نے سیکھا ہے کہ اختلافات کو کیسے ختم کیا جائے اور اختلافات کے باوجود اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمانی سفارتکاری کا حسن بھی ہے جس کے ذریعے عوام کے حقیقی نمائندے تمام بڑے تنازعات کے پر امن حل کے لئے گفت و شنید کر سکتے ہیں اور اس کانفرنس کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگران 6ریاستوں میں کوئی اختلاف رائے ہو تو اس پر بحث ہونی چاہیے اور اس کا حل نکانا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہمارے اختلافات کو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اور ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ بے پناہ استعداد کے حامل ہونے کے باوجود ہم اس سے استفادہ کر نے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ سرحدیں ہونے کے باوجود ،ان چھ ممالک کے مابین بین الا علاقائی تعلق انتہائی نچلی سطح پر رہا ہے بذریعہ ریلوے قابل اعتماد رابطہ نہیں ہے جبکہ ہماری اپنی اپنی ائیر لائنز بھی ایک دوسرے ممالک میں کم ہی فعال ہیں ۔ نتیجتاہم چھ ممالک کے مابین سیاحت کا شعبہ بھی کوئی اچھی تصویر کشی نہیں کرتا۔سپیکر نے کہا کہ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہو گا انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں ان کی نظر مسلسل حالات کے دھارے پر رہی ہے اور یہ مشاہدہ کیا ہے کہ تمام عالمی مسائل پر کئی حوالوں سے ہماری حکمت عملیاں ایک جیسی رہی ہیں۔ ہم سب دہشت گر دی کی تمام صورتوں اور جہتوں کی مذمت کر تے ہیں ،ہم نے مسلسل ان تمام مسائل جو انسانیت کے لئے سخت مصیبت کا باعث ہیں ، کا مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیا ہے اور ہم خطے کے مسائل کے مقامی حل کی حمایت کر تے ہیں ۔
سپیکر نے یقین کا اظہار کیا کہ ا ن چھ اقوام کے مابین ترقی کے لئے اتحاد ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنے معزز ہم منصبوں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں میں نے خیالات میں یکسانیت پائی ہے اور اسی حوصلہ افزائی کی بناء پر میں نے اس کانفرنس کی تجویز پیش کی انہوں نے سپیکر زکانفرنس مستقل فورم بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ
پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے باعث فخر ہوگا کہ ایک مستقل سیکرٹریٹ بننے اورفورم کے قواعد پر باہمی اتفاق رائے ہونے تک اس کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرے۔انہوں نے متعلقہ پارلیمانوں کی سیکورٹی ، تجارت اوراس سے متعلقہ کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کرانے کی بھی تجویز دی۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ آ ف پاکستان میں جملہ پارلیمانوں کے ساتھ دوستی گروپ تشکیل دے دیئے گئے ہیں۔ اگر ایسے فورم تمام علاقائی پارلیمانوں میں قائم کر دیئے جائیں تو ان سے باقاعدہ باہمی رابطوں اور خیالات کے تبادلوں کی بابت استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اس سمت چند قدم اٹھالے تو منزل مقصود کو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اے پی پی/احسن