قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی  برائے فنانس انیڈ ریونیو کا اجلاس 

294

اسلام آباد، 14مارچ  (اے پی پی): قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا چئیر مین کمیٹی فیض اللہ کموکا کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ایف بی آر کی کارکردگی سمیت بے نامی اکاؤنٹس، سوئس اکاؤنٹس اور پانامہ پیپرز کے معاملات زیر بحث آئے۔

اجلاس کے دوران کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ ایک ہزار  پاکستانی ایسے ہیں جن کی دبئی میں جائیدادیں ہیں،مگر یہ ابھی طے ہونا ہے کہ ان کی باہر کس قسم کی جائیدادیں ہیں۔ ہم دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ بات کر رہے ہیں کہ ہمیں ایسے پاکستانیوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں جن کی دبئی میں جائیدادیں ہیں۔ ایف بی آر نے متحدہ عرب امارات میں آف شور اثاثوں کے 400کیسوں میں سے صرف ایک کیس میں سے 170ملین روپے ٹیکس وصول کیا۔

 اجلاس میں ممبر کمیٹی عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ہمیں بے نامی اکائونٹس کو ریگولیٹ کرنے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا۔ اگر تحقیقات کا حال یہی رہا تو ہم اگلے تیس سال بھی اسی پوزیشن میں ہونگے ۔

چئیر مین کمیٹی نے کہاکہ سوئس اکاؤنٹس کا بہت ذکر ہوتا تھا مگر اس کے حوالے سے کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، اس وقت ایف اے ٹی ایف میں ہم گرے لسٹ میں ہیں مگر ایف بی آر نے کوئی کام نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ  ہم انہی بے نامی اکاؤنٹس کی وجہ سے گرے لسٹ میں شامل ہیں مگر اس حوالے سے ہماری کارکردگی صفر ہے۔

چئیر مین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کوبتایا جائے کہ کون کون سے تحقیقات ادارے ہیں جو بے نامی اکاؤنٹس پر تفتیش کر رہے ہیں،پانامہ  لیکس کا اتنا شور مچا مگر ایف بی آر کی بریفنگ میں اس کا کہیں ذکر نہیں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کب سے پانامہ  پیپرز کا سن رہے ہیں مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھاکہ  کمیٹی کو اون کیمرہ تفصیلی بریفنگ دی جائے جس میں بے نامی جائیدادوں اور باقی معاملات کی پوری ڈیٹیلز شامل ہونی چاہئیں۔

ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پانامہ پیپرز کا معاملہ بے نامی جائیدادوں میں نہیں آتا۔ ممبر پالیسی ایف بی آر حامد عتیق سرور نےکمیٹی کو بتایاپانامہ لیکس میں جن لوگوں کے نام شامل تھے اس میں سے کچھ تو بہت مشہور شخصیات تھیں ہم صرف انہی کے پیچھے جا سکے مگر جن لوگوں کی تفصیلات ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے بارے میں ہم تحقیقات نہیں کر سکے۔ 400 کیسز کی ہمارے پاس انفارمیشن ہیں جس میں سے 259 کے پیچھے ہم جا رہے ہیں تاہم پانامہ  پیپرز میں صرف لوگوں کے نام اور کمپنیز کے نام شامل تھے ان کمپنیز میں کس کے کتنے اثاثے تھے اس کی تفصیلات ہمارے پاس نہیں ہیں۔ پانامہ پیپرز میں سے ہم نے پندرہ کیسز پر تحقیقات کیں جس میں سے ہم نے پچاس بلین روپے ریکورکئے ہیں۔

چئیر مین کمیٹی فیضل اللہ کموکا کی نے کہا کہ ہم ایف بی آر کے سسٹم کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ کن رولز کے تحت بے نامی اکاؤنٹس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ ممبر پالیسی ایف بی آر حامد عتیق سرور نے کمیٹی کو بتایا کہ اب تک ایف بی آر نے  آٹھ ہزار بے نامی اکاؤنٹس کا پتہ لگایا ہےاور بینک ہمیں یکم اپریل سے بے نامی اکاؤنٹس کی تفصیلات دینا شروع کر دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بے نامی اکاؤنٹس کے خلاف کام کرنے کا یہ مقصد  ہر گز نہیں کہ ہم بینکس کا اور لوگوں کا کام متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

ممبر کمیٹی قیصر احمد شیخ نے کہا کہ بینکوں میں بے نامی اکاؤنٹس کی تعداد   آٹھ ہزار  نہیں ہیں بلکہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ ان اکاؤنٹس میں کتنی رقم موجود ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو بریفنگ میں آگاہ کیا کہ اون منی مینوفیکچررز نہیں لیتے سرمایہ کار لیتے ہیں۔ کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا کہ یہ معلومات ہمارے پاس ہیں یہاں طلب اور رسد کا فرق آرہا ہے اور اس سے صارف کو مشکلات کا سامنا ہے۔ وزارت حکام نے بتایا کہ گزشتہ سال ملک میں کل 2لاکھ 18ہزار 372گاڑیاں مختلف کمپنیوں نے بنائی اس میں 800سی سی سے 1800سی سی کی گاڑیاں ہیں۔ کمیٹی اراکین نے کہا کہ گاڑیوں کی  تفصیلات الگ الگ دی جائیں۔

قیصر احمد شیخ نے کہا کہ اون منی مینوفیکچررز، سرمایہ کار اور ڈیلرز تک سب کو ملتی ہے۔ کمیٹی رکن جمیل احمد خان نے کہا کہ عام عوام کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے، جس قیمت میں ہم یہاں مہران گاڑی خریدتے ہیں بیرون ملک میں اسی قیمت پر کرولا گاڑی مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ ہمیں اس شعبے میں بہتری لانی ہوگی اور پیداوار اور تصرف کو دیکھنا ہوگا، یہ پالیسی کا معاملہ ہے پالیسی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈز پر گاڑیاں بک جاتی ہے اور جب گاڑی آتی ہے اور اون منی دیکر گاڑی لے لی جاتی ہے

اجلاس میں کمیٹی نے ایف بی آر کی بریفنگ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ۔ چئیر مین  کمیٹی  نے کہاکہ اگلے اجلاس میں درست اعداو شمار کے ساتھ مکمل تیاری کر کے آئیں اوردیگر ادارے جو بے نامی اکااونٹس کی تحقیقات کر رہے ہیں ان کو بھی بلایا جائے۔اس حوالے سے اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ہماری کمیٹی کا فورم اس حوالے سے حاضر ہے۔

اجلاس میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ملازمین کو درپیش مسائل پر کمیٹی نے وزارت تجارت کے سیکرٹری کو طلب کیا تھا ۔کمیٹی نے سیکرٹری تجارت کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا ۔

ممبران کمیٹی نے کہا کہ سیکرٹری وزارت تجارت کا میٹنگ میں نہ آنا کمیٹی کی تذ لیل ہے، کمیٹی کو اس حوالے سے ایکشن لینا چاہیے۔ممبران نے کہا کہ وہ میٹنگ میں ذاتی حیثیت میں آئیں اور آ کر ایجنڈا پر بریفنگ دیں ۔کمیٹی نے ہدایت جاری کی کہ سیکرٹری کی عدم موجودگی پر ناراضگی کا نوٹس جاری کیا جائے۔ چئیر مین کمیٹی نے کہا ہم نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے چئیر مین کو  بھی بلایا تھا  مگر وہ نہیں آئے ۔

سورس:وی این ایس، اسلام آباد