ملک میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی اور اغواء کے واقعات کو کنٹرول کرنے کیلئے زینب الرٹ بل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے گا: مصطفی نواز کھوکھر

190

اسلام آباد17 فروری (اے پی پی ) : ایوان بالاء کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں گمشدہ اور اغواء شدہ بچوں کیلئے الرٹ کو بڑھانے، جوابی ردعمل اور بازیابی کیلئے احکامات وضع کرنے کے بل (زارا)2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

 چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی اور اغواء کے واقعات کو کنٹرول کرنے کیلئے زینب الرٹ بل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے گا۔ فنکشنل کمیٹی نے گزشتہ دو اجلاسوں کے دوران وزارت اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مختلف تجاویز مرتب کی ہیں۔ حکومت اور وزارت قانون نے اُن سے اتفاق بھی کیا ہے بل میں موجود خامیوں اور سقمز کو دور کر کے بل کو موثر بنایا جائے گا۔فنکشنل کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی پہلی 8شقوں کا وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل کے ساتھ تفصیلی مشاورت کرتے ہوئے متعدد ترامیم کی منظوری دی۔ فنکشنل کمیٹی نے کثرت رائے سے بل کا اطلاق اسلام آباد کی بجائے پورے ملک کے دائرکار تک لانے کی کثرت رائے منظوری دی۔ ڈی جی زارا کی تقرری کے حوالے سے فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ڈی جی کی تقرری کے لئے وزارت انسانی حقوق پبلک اشتہار دے کر وزیراعظم پاکستان کے سامنے نام رکھے گی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہوتی ہے اور پولیس والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر کس دفعہ کے تحت درج کی جائے۔اغوا ہونے والے بچے کے حوالے سے ابتدائی چند گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں ایف آئی اے کی تاخیر سے مجرموں کو فائدہ اور لواحقین کو نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام آباد میں معصوم فرشتہ بچی کے اغوا ہونے پر دو دن تک ایف آئی آر درج نہ ہوسکی اور پولیس کا بچی کے والدین سے رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔ ایف آئی آر کے اندارج میں 154کے پراسس کو ٹھیک کرنے سے ملک بھر میں ایف آئی آر بروقت درج ہو سکے گی کمیٹی نے ایف آئی آر کے انداج میں تاخیر برتنے پر کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ دوسال قید اور 50ہزار سے لے کر 1لاکھ تک جرمانہ کرنے کی منظوری دی۔ سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ جب تک سزائیں اور جرمانے شامل نہیں کریں گے پولیس اہلکاروں کا رویہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ فنکشنل کمیٹی نے بچوں کے زیادتی کے کیسز کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کی منظوری بھی دی جو تین ماہ کے اندر کیسز نمٹانے کی پابند ہوگیں۔فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ زارا کا کردار الرٹ جاری کرنے کے ساتھ اداروں کے مابین تعاون کرنا ہو گا۔زارا کی معلومات ویب سائٹ پر انگلش اور اُردو میں پورے ملک میں فوری طور پر پھیلائی جائیں گی۔کمیٹی کو بتایاگیا کہ آئی سی ٹی چائلڈ پروٹیکشن ایڈوئزری بورڈ کا ڈارفٹ تیار کر لیا گیا ہے، پولیس گم شدہ یا اغوا ہونے والے بچے کی معلومات دوگھنٹے کے اندار اندار مواصلات کے نظام کو موثر انداز میں استعمال میں لاتے ہوئے عام کرے گی اور روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کرے گی۔اراکین کمیٹی نے زینب الرٹ بل سے لاپتہ بچے کی ریکوری اور تحقیقات کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ زینب بل کا کام بچوں کو ریکور کرنا یا تحقیقات کرنا نہیں ہے،زینب الرٹ بل کے تحت معلومات،کوآرڈینیشن اور سہولت فراہم کی جا سکے گی،تحقیقات کرنا اور بچوں کو ریکور کرنا پولیس کا کام ہے۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ پولیس اطلاع ملتے ہی ایف آئی آر کا اندراج کرے گی اور بل کے تحت پولیس 14 روز کے اندر چالان پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ بل کے سیکشن 8میں جو دفعہ 182شامل کی گئی ہے اُس کا مقصد اور ہے اور دفعہ 182میں جو سزائیں تجویز ہیں وہ بھی اور مقاصد کیلئے ہیں  سکشن182میں چار سزائیں ہیں جن سے مزید ابہام پیدا ہونگیں ۔سیکشن 154پولیس کو پابند بنائی گی کے بچے کی ریکوری کے لئے فوری ایکشن لے۔ کمیٹی اجلاس میں انکشاف کی گیا کہ جاوید اقبال نے 103بچوں کے  قتل کئے اور صرف دو کیسزمیں اُس کے خلاف  ایف آئی  آر در ج ہو سکی تھی۔ بل کی باقی شقوں کا جائزہ لینے کیلئے آئندہ اجلاس میں جائز ہ لینے کا فیصلہ کیا۔

فنکشنل کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی،کشوبائی، کامران مائیکل،قرۃ العین مری، شاہین خالد بٹ، اورمحمد طاہر بزنجو کے علاوہ وزارت انسانی حقوق اور وزارت قانون کے حکام نے شرکت کی۔

وی این ایس: اسلام آباد

Download Video