پاکستان کا  طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ کا خیر مقدم ، معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی، انٹرا افغان ڈائیلاگ طے شدہ وقت میں ہونا چاہیے:شاہ محمود قریشی

155

اسلام آباد ، یکم مارچ (اے پی پی):پاکستان نے کہا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ خوش آئند ہے، معاہدہ امریکہ اور طالبان کے مابین پہلا ٹھوس اقدام اور اہم پیش رفت ہے، طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی، انٹرا افغان ڈائیلاگ طے شدہ ٹائم فریم میں ہونا چاہیے، اس سے اعتماد بڑھے گا، امن معاہدے کو آگے بڑھانے کے لئے ہر ممکن تعاون کریں گے، عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو اور پاکستان سے مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے لئے بھرپور تعاون کریں۔

پاکستان کی افغانستان کی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے مثبت سوچ برقرار رہے گی، افغانستان میں امن سے پاکستان اس کا براہ راست مستفید ہونے والا ملک ہے، طویل جنگ کے بعد افغانستان کے عوام بھی اب امن چاہتے ہیں، افغان قیادت کا یہ امتحان ہے کہ وہ کس قدر لچک دکھاتے ہیں، کسی ملک میں قونصلیٹ قائم کرنا میزبان ملک کا استحقاق ہے تاہم یہ قونصلیٹ کسی دوسرے ملک کے خلاف تخریب کاری کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، توقع ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں تخریب کاری کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔

 اتوار کو دفتر خارجہ میں ترجمان ڈاکٹر عائشہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دستخط معاہدے کے وقت 50ممالک کے نمائندے اور افغانستان کے پڑوس ممالک کے وزرائے خارجہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے  کہا کہ  افغان عوام امن چاہتے ہیں اور انہوں نے طویل جنگ دیکھی ہے، مشکلات، نقل مکانی دیکھی ہے وہ امن پر سکھ کا سانس لیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ طالبان امریکہ معاہدے سے  افغان دھڑوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ افغان قیادت گفت و شنید سے مسائل کے سیاسی حل میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے کس قسم کا افغانستان دیکھنا ہے۔ ایک دوسرے کا اعتماد انہوں نے خود بحال کرنا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ افغانستان کی قیادت اس پیش رفت کے لئے کتنی لچک دکھاتی ہے؟ وہ افغانستان کے مفاد کو مدنظر رکھتی ہے یا اپنا مفاد دیکھتی ہے؟ یہ دیکھنا ہے کہ کیا وہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے سمجھوتے پر تیار ہوں گے؟۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امن معاہدے کے دوران پاکستان کے کردار کو سراہا گیا، وہ لوگ جو ماضی میں پاکستان پر نقطہ چینی کرتے تھے وہ وہاں ہمارے کردار کے معترف تھے جو پوری قوم کے لئے خوش آئند ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ امن معاہدے کے بعد پومپیو سے ملاقات ہوئی جس میں ان کے سامنے چند نکات رکھے جن میں تجویز دی کہ ہمیں خرابی پیدا کرنے والے عناصر پر نظر رکھنا ہو گی۔ منفی کردار ادا کرنے والوں کی نشاندہی ہونی چاہیے اس کے لئے ایک میکنزم بنایا جائے۔

انہوں نے  کہا کہ  اعتماد کی بحالی کے لئے معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی ہونی چاہیے اس سے اعتماد بڑھے گا، اس پر کیسے پیش رفت ہو گی یہ دیکھنا ہے۔ پومپیو کو بتایا کہ انٹرافغان ڈائیلاگ میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے جبکہ  لوگوں میں پیدا ہونے والی امید برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان امریکہ کے مابین معاہدہ ایک پل میں نہیں ہو گیا، اس کے لئے کافی وقت لگا۔

شاہ محمود قریشی  نے کہا کہ اس کے علاوہ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ترکی کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمارا اگلا اقدام وسط ایشیائی ممالک سے مواصلاتی رابطے ہیں، ترک وزیر خارجہ سے ملاقات میں شام میں ترک فوجیوں پر ہونے والے حملے سے شہادتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جن ممالک نے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی انہیں کردار ادا کرنا چاہیے، افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے قیام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں قونصلیٹ کا قیام میزبان ملک کا کام ہے اگر یہ قونصلیٹ اپنا کام کرتے ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں تاہم اگر وہ دوسرے ملک میں تخریب کاری کریں گے تو پھر ان پر اعتراض بھی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف تخریب کاری کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، معاہدے میں یہ چیز موجود ہے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دہشتگردی کی پشت پناہی اور سہولت کاری کا کردار نہیں ہو گا، پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور افغانستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ مستقبل کے فیصلے افغان خود کریں، کسی ملک کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیں۔ پاکستان تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، افغانستان میں امن سے پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی ملے گی، تاپی گیس پائپ لائن سمیت دیگر معاہدوں اور وسط ایشیائی ریاستوں سے مواصلاتی رابطوں کو عملی جامہ اسی طرح پہنایا جا سکتا ہے۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دنیا نے اپنے بے پناہ وسائل جھونکے، ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے، ہزاروں اموات ہوئیں، 3500اتحادی فوجی جان سے گئے، ہزاروں افغان معذور ہوئے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان امن معاہدے میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے، کچھ سوچیں اب بھی امن معاہدے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ توقع ہے کہ دنیا اس سوچ پر حاوی آئے گی تا کہ امن عمل آئے بڑھ سکے۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن قوتوں نے پاکستان کا امن برباد کیا ان کو شکست فاش ہوئی، انہیں بے دخل کیا گیا، آج سابق قبائلی علاقہ جات قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں، وہاں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، بازاروں کھلے ہیں، تعلیم و تدریس کا عمل جاری ہے، کھیل کے میدان آباد ہیں، نقل مکانی کرنے والے اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا عمل مکمل ہونے سے امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جو کردار ادا کیا وہ ہم نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں کیا، نہ کسی کے کہنے پر پہلے کیا اور نہ آئندہ کریں گے، ہم سے کوئی ڈومور کا مطالبہ نہیں، ہمیں اعتماد ہے کہ ہم درست سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ سنجیدہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی ہے۔ پاکستان اس پر پیش رفت چاہتا ہے، دنیا وہاں کے حالات دیکھ رہی ہے، کچھ لوگ اس پر اظہار بھی کر رہے ہیں اور کچھ مصلحتاً خاموش ہیں، اس خاموشی کی وجوہات سے بھی ہم آگاہ ہیں، دنیا میں ہمارے موقف کی تائید ہوئی ہے کہ یہ اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین میں اس بارے بات ہوئی ہے، دنیا کے پارلیمان میں اس پر بات ہو رہی ہے، سیاسی قیادت اس پر بات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے دورہ پر اعتراف کیا کہ اس خطے کے دیرپا امن کے لئے ایک تنازعہ کا حل ضروری ہے یہ تنازعہ کشمیر ہی ہے، ہمیں توقع ہے کہ کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، بھارت نے کشمیر میں طویل لاک ڈاﺅن کر رکھا ہے تا کہ وہاں کے حالات عالمی برادری سے پوشیدہ رکھے جا سکیں لیکن اب وہ دہلی اور دیگر علاقوں میں ایسا نہیں کر سکتا، آج ہندوستان سے یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ اس قسم کا ہندوستان ہم نہیں چاہتے۔

وی  این ایس،  اسلام آباد

Download Video