اسلام آباد،4 مارچ( اے پی پی) :پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ریوینیو ڈویژن (FBR)اور ایوی ایشن ڈویژن کے آڈٹ پیراز کو زیر بحث لایا گیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کہ نیو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر انفراسٹرکچر کا جو کام کیا گیا اس کا ریکارڈ بغیر پیمائش کے پیمائش بک میں ڈال دیا گیا اور 20,176.123 ملین روپے کی ادائیگیاں بھی کر دی گئیں جو کہ غیر قانونی ہے۔ آڈٹ نے اعتراض کیا جو مروجہ پروسیجرز ہیں اس کو فالو کیا جائے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس سے پہلے اسی طرح کے آڈٹ اعتراض میں جواب دیا گیا کہ پوری پیمائش اس لئے نہیں لے سکتے کیونکہ نوٹنگ پیڈ کا سائز چھوٹا ہوتا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز جواب نہیں دیا جا سکتا تھا۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے مطابق پیمائش صحیح لی گئی تھیں،سیکرٹری ایوی ایشن نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ائیر پورٹس کے حوالے سے بہت سے کورٹ کیسز ہیں نیب میں بھی کیسز چل رہے ہیں اس کے علاوہ ایف آئی اے نے بھی ائیر پورٹ کے بہت سے پراجیکٹس کی انکوائریز کی ہیں۔
آڈٹ آفیشلز نے کمیٹی کو بتایا کہ جتنے بھی پبلک ورکس کے پراجیکٹس مکمل کئے جاتے ہیں ان کا ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے مئیرمنٹ بک ہوتی ہے جو کہ مستند پیمائش کا پیمانہ ہے مگر اس پیرا میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کی پیمائش ، مستند پیمائش بک کے بغیر لی گئی ہیں، جو کہ صیح نہیں ہے۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مئیرمنٹ بک کے رولز کو فالو کئے بغیر ادائیگی کر دی جائے۔
ممبر کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے کمیٹی کو بتایا کہ نیو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے رن وے پر کریکس ہیں ۔ مگر میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس طرح کے کریکس اچھے ہوتے ہیں ٹائرز کو اچھی طرح گرپ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا انٹرنیشنلز پروسیجرز کے مطابق ایک رن وے سے دوسرے رن وے میں 1035 میٹرز کا فاصلہ ہونا چاہئے مگر نیو بے نظیر بھٹوانٹرنیشنل ائیر پورٹ پر دونوں رن ویز کے درمیان صرف دو سو دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کے متعلق پوچھنے پر بتایا گیا کہ دوسرا رن وی ٹیکسی کے لئے استعمال کر لیا جائے گا۔
آڈٹ آفیشلز نے کمیٹی کو کہا کہ اس آڈٹ پیرا سے متعلق ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور پھر ریسپانسبلٹی فکس کر کے کمیٹی کو پندرہ دن میں آگاہ کیا جائے۔
کمیٹی کو ایک اور آڈٹ پیرا میں بتایا گیا کہ نیو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر سیکینڈری رن وے کے درمیان فاصلہ صرف دو سو دس کلومیٹر رکھا گیا ہے جو کہ انٹرنیشنلز اسٹینڈرز کے منافی ہے۔ کمیٹی کے ممبران نے سوال کیا کہ اس کا ڈیزائن کس نے منظور کیا تھا۔ جس پر سیکرٹری سول ایوئی ایشن اتھارٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ رن ویز کے درمیان 1035 میٹرز کے فاصلے کے انٹرنیشنل اسٹینڈر کو وہاں فالو کیا جاتا ہے جہاں دو جہازوں نے اکھٹے لینڈ کرنا ہو نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ایسا نہیں ہے۔ کمیٹی نے کہا جس نے ڈیزائن کیا وہ ذمہ دار ہے ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ آڈٹ کو کس نے کہا ہے کہ وہ یہ سوچ لیں کہ رن ویز کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں رکھا گیا ہے۔
اس پر کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے غیر سنجیدہ روے پر انکی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کمیٹی کو بہت غیر سنجیدہ لے رہے ہیں۔ ممبر کمیٹی منزہ حسن نے کہا کہ سیکینڈری رن وے کی تعمیر پر پبلک کا پیسہ ضائع کیا گیا ہے اور مستقل کی پلاننگ کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا بلینز روپے کا پراجیکٹ پر اس طرح کی ناکام پلاننگ قابل قبول نہیں ہے لہذا ذمہ داران کا تعین کرکے رسپانسبلٹی فکس کی جائے۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ سارا کیس اب نیب میں آ گیا ہے اور تمام پیراز نیب کے پاس ہیں وہ اس پر انکوائری کر رہی ہے۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیر پورڑ پر رن ویز کے قیام میں ٹیکنیکل فالٹس کے حوالے سے کرمنل ایکشن لینے کے لئے وزارت داخلہ کو کہا مگر ابھی تک اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کمیٹی کے تمام ممبران کو مہیا کی جائے تاکہ ہم اس کو پڑھ سکیں۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ رن ویز کی تعمیر پر 3.4 بلین روپے لاگت آئی ہے ۔ جس پر ممبر کمیٹی مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایک غلط فیصلے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔
وی این ایس ،اسلام آباد