اسلام آباد ، 3 جون (اے پی پی): پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاوس میں کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔
اجلاس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے 2012-13ءکے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ حالات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے ہم نے چینی، آٹے اور یوٹیلٹی سٹورز سمیت کئی اہم امور کا جائزہ لینا ہے۔ این ایچ اے کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے چیئرمین نے آڈٹ حکام کو ہدایت کی کہ پی اے سی کے اجلاس سے تین دن قبل ارکان کو اجلاس کے ایجنڈے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
پی اے سی نے سی ڈی اے سے ریکوری کے حوالے سے ہدایت پر عمل درآمد نہ کرنے کی وضاحت طلب کر لی۔ سردار ایاز صادق اور نور عالم خان نے کہا کہ جو جو ادارے پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتے ان سے باز پرس کی جائے۔ نور عالم خان نے کہا کہ او جی ڈی سی کے ایم ڈی نے کیمری گاڑی منگوائی ہے۔ پی اے سی کے چیئرمین نے آڈٹ کو ہدایت کی کہ اس کی وضاحت طلب کی جائے کہ آیا ادارہ قانونی طور پر گاڑی منگوانے کا مجاز ہے یا نہیں۔
پی اے سی کے چیئرمین نے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت کی کہ ہر مہینے باقاعدگی سے ڈی اے سی کے اجلاس منعقد کئے جائیں، اس سے پی اے سی کا کام کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی کی تمام ذیلی کمیٹیاں چھوٹے چھوٹے معاملات کو کلیئر کریں تا کہ زیر التواءآڈٹ اعتراضات نمٹائے جا سکتے ہیں۔
سیّد نوید قمر نے کہا کہ ذیلی کمیٹیوں کو اجلاس منعقد کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی اس طرح کام کیسے نمٹے گا۔ رانا تنویر حسین نے کہا ایک ایک وقت میں تین تین کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے تھے جس کی وجہ سے وزارتوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ہر ذیلی کمیٹی کو ایک ایک وزارت دے دیں۔
پی اے سی سیکرٹریٹ کی طرف سے بتایا گیا پی اے سی کی 8 ذیلی، 10 ایشوز پہ اور ایک عملدرآمد کمیٹی قائم ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ بجٹ سیشن کے دوران صبح اور شام ایک ایک ذیلی کمیٹی کا اجلاس رکھا جائے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ کم از کم عملدرآمد کمیٹی کو اپنا کام شروع کرنا چاہیئے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہاں احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے والوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ سردار ایاز صادق اورملک عامر ڈوگر نے کہا کہ سرکاری افسران کو سختی سے پابند کیا جائے۔ ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور چیئرمین پی اے سی جس طرح کام شروع کیا تھا اس سے بہتر طور پر کام چلتا رہا ہے انہوں نے تجویز دی کہ پی اے سی کی ذیلی کمیٹیاں کم کر کے کام شروع کیا جائے۔
ریاض فتیانہ نے کہا کورونا کی صورتحال کے دوران ساری دنیا کی پارلیمنٹس فعال ہو گئی ہیں ہمیں بھی پارلیمنٹ اور پی اے سی کو فعال کرنا چاہئے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ پی اے سی کو موثر بنانے کےلئے قانون سازی پر بھی توجہ دی جائے۔ نور عالم خان نے کہا کہ بیوروکریٹ غلط کام کرتے ہیں مگر رگڑا سیاستدانوں کو لگتا ہے۔
این ایچ اے کی طرف سے پی اے سی کی ہدایت پرمقررہ مدت کے دوراں تحقیقات کر کے رپورٹ جمع نہ کرانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کرنے کا حکم دیا گیا۔ ارکان کی طرف سے 30 مختلف منصوبوں میں ٹھیکیداروں کو زائد ادائیگیوں کے حوالے سے ریکوریوں کی مجموعی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ چیئرمین این ایچ اے موجود نہیں ہیں ان کو وقت دے کر بجٹ کے بعد بلایا جائے تاکہ وہ ان تمام سوالوں کے جواب دے سکیں۔ سیکرٹری مواصلات ظفر اسلم نے بھی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وزارت میں آج ان کا پہلا دن ہے ہم کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ امور ڈی اے سی میں نمٹائیں گے۔ بجٹ کے بعد جولائی میں ہم پی اے سی میں پیش ہوکر وضاحت کریں گے۔پی اے سی نے ان کے اس موقف تسلیم کرتے ہوئے وزارت مواصلات کو جولائی تک کا وقت دے دیا۔
پی اے سی کے رکن ابراہیم خان نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ملتان کے ایک شخص کو ایف بی آر کی جانب سے ایکسپورٹ کی مد میں 6 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے اور وہ شخص صرف پانچ مرلے مکان کا مالک ہے۔اس پر 2019ءکی آڈٹ رپورٹ میں اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے مگر اس پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی کمیٹی کے چیئرمین تنویر حسین اور دیگر ارکان نے اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایف بی ار کو اس معاملے کی وضاحت کا حکم دیا۔
اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سیّد نوید قمر، حنا ربّانی کھر، منزہ حسن نے وڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی جبکہ مشاہد حسین سیّد، ریاض فتیانہ، نور عالم خان، خواجہ شیراز محمود، سردار ایاز صادق، راجہ پرویز اشرف اور خواجہ محمد آصف، شاہدہ اختر علی سمیت دیگر ارکان اجلاس میں براہ راست شریک ہوئے۔