کراچی ،21 ستمبر( اے پی پی): نیپرا کی جانب سے کےالیکٹرک کےمتاثرین کی شکایات سننے کے لیے کراچی کے مقامی ہوٹل میں سماعت کا انعقاد کیا گیا جس میں چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی، سی ای او کے الیکٹرک مونس عبداللہ علوی اور کراچی چیمبر کے سابق صدر سراج قاسم تیلی بھی شریک ہوئے۔کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو مونس عبداللہ علوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک نے اپنے معاہدے سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور 16 فیصد نقصانات میں کمی کی ہے، کے الیکٹرک کے نظام میں مستقل بہتری جاری ہے۔کے الیکٹرک کے چیف فنانشل آفیسر عامر غازیانی نے کہا کہ نیپرا ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی ہے اسکے تحت ہمیں 2023 تک کام کرنے کی اجازت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کے الیکٹرک کے علاوہ دیگر کمپنیاں بھی بجلی کی ترسیل میں آئیں، لیکن نئی آنیوالی کمپنیوں کو بھی یہ طے کرنا ہوگا کہ سستی بجلی کی ترسیل کیسے کرنی ہے۔
چیئرمین نیپرا نے سماعت میں کے الیکٹرک سے کہا کہ آپ کہتے ہیں اگر منافع والے علاقے نکل گئے تو نقصان والے علاقوں میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی، 15 سال میں بجلی کی فراہمی بہتر بنانے کیلئے آپ نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟چیئرمین نیپرا نے سوال کیا کہ آئندہ تین سال میں کیا اقدامات ہیں جس سے بجلی کی فراہمی بہتر ہوگی۔معروف تاجر سراج قاسم تیلی نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کی جائےتو کراچی کی تاجر برادری بجلی کی نئی ڈسٹری بیوشن کمپنی بنانے کو تیار ہے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کے ای کے پاس فالٹ ڈی ٹیکشن انجینئر نہیں ہیں ، اگر کہیں فالٹ ہوجائے تو سات سے آٹھ گھنٹے فالٹ ڈھونڈھنے میں لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں نیشنل گرڈ سے 650 میگاواٹ بجلی دلوائی،کورونا میں پورا شہر پانچ بجے بند ہو رہا تھا اس وقت بھی لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی۔خواجہ اظہارنے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیا جائے،کیونکہ ان کے پاس گرمیوں میں فیول نہیں اور سردیوں میں گیس نہیں ہوتی ،ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے صنعتی زونز نے 1 ارب سے زائد کا جرمانہ ادا کیا ہے آخر میں نیپرا نے کے الیکٹرک سے متعلق عوامی سماعت بد نظمی و شور شرابے کے باعث ختم کر دی ۔