ہمیں قرضوں میں ڈوبا ہوا پا کستان ورثہ میں ملا، قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے، وزیراعظم عمران خان کا فیصل آباد کے برآمد کنندگان اور تاجر برادری سے خطاب

255

فیصل  آباد۔18نومبر  (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں ایسا پاکستان ورثہ میں ملا جو قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے اور خرچ کر کے کام چلایا گیا، ایسے میں ملک کیسے ترقی کرتا، موجودہ حکومت ملک میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے، اﷲ کا شکر ہے کہ اس وقت پاکستان کے اشاریئے مثبت ہیں، تعمیراتی صنعت چل پڑی ہے، اس سے منسلک صنعتیں بھی چلیں گی، اس کے لئے بھی ہم نے پیکیج دیا ہے، صنعتی عمل کی ترقی کے لئے تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت کریں گے۔ کورونا وباءکی دوسری لہر باعث تشویش ہے، ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا تاکہ ہماری کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں اور غربت نہ بڑھے، خدانخواستہ کورونا کی صورتحال بگڑی تومعیشت بھی متاثر ہوگی، ہر ڈویژن میں ہائی کورٹ ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کا ایسا نظام لا رہے ہیں جس سے عوام کو سہولیات ملیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو فیصل آباد کے برآمد کنندگان اور تاجر برادری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں پر ہائی کورٹ کی بات کی گئی ہے، اس بات سے متفق ہوں کہ ہر ڈویژن میں ہائی کورٹ ہونی چاہئے، حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لئے سہولیات پیدا کرے تاکہ لوگوں کو ان کی دہلیز پر سہولیات میسر آ سکیں، نیا بلدیاتی نظام ملک کی تاریخ کا سب سے بہترین نظام ہوگا۔ ترقیاتی فنڈز سے شہر ٹھیک نہیں ہو سکتا، لندن، نیویارک، پیرس اور تہران سمیت تمام دنیا کے شہروں کے اندر منتخب میئر کا نظام ہوتا ہے، اس کی پوری کابینہ ہوتی ہے، ان کے تمام مسائل ان شہروں میں حل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہر کا اپنا انتخاب ہوگا، میئر براہ راست منتخب ہوگا۔ پہلے یونین کونسلوں کے ذریعے انتخاب ہوتا تھا، اس میں پیسہ چل جاتا تھا، وہ سسٹم ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ مانچسٹر والے بھی کہیں گےکہ  فیصل آباد ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ءمیں ہمیں جو پاکستان ملا اس پر اندرونی و بیرونی اتنا قرضہ تھا اور اتنا خسارہ تھا جوہماری تاریخ میں نہیں رہا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تھا۔ جب تک اتنا خسارہ ہو اس ملک کی درجہ بندی میں بہتری نہیں آتی اور کرنسی پر دباؤرہتا ہے۔ کرنسی گرنے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تھا۔ اتنا خسارہ ہو تو کرنسی کی قیمت تو کم ہونی ہی ہے۔ قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں اور پھر وہ خرچ کر کے کام چلایا جائے تو کیسے ملک ترقی کرے گا۔ ہم جب حکومت میں آئے تو ملک مشکل حالات میں تھا اور سخت معاشی چیلنجز درپیش تھے اور معیشت دبائومیں تھی، ہم بڑے مشکل وقت سے گذرے ہیں۔ غیر ملکی دوستوں نے ہماری اس وقت مدد کی جس کی وجہ سے ہم دیوالیہ ہونے سے بچ گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں مشکل وقت سے نکالا۔ 60ءکی دہائی میں پاکستان کی ترقی کی دنیا میں مثالیں دی جاتی تھیں، جنوبی کوریا جیسے ممالک ہمارے ترقیاتی پلان پر عمل کر کے آگے نکل گئے ہیں۔ ہمارے ادارے بھی مضبوط تھے۔ ہماری یونیورسٹیوں کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ پاکستان کا ایک مقام تھا۔ اس وقت پاکستان کی انڈسٹری بھی ترقی کر رہی تھی، ہمارے پرائیویٹ بینک بھی تھے لیکن جب 70ءکی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو منتخب ہو کر آئے اور انہوں نے نیشنلائزیشن کا عمل شروع کیا تو اس سے یہ عمل رک گیا، یہ کہا جا رہا تھا کہ 22 خاندانوں میں پاکستان کی ساری دولت چلی گئی، کامیاب انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا تھا کہ اس کی زندگی بہتر ہوتی، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے ہی ہم آگے بڑھتے ہیں، ہمیں ایسی قانون سازی کرنی چاہئے تھی کہ غریب عوام کی لوٹی گئی رقم واپس لاتے۔ چین نے 30 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا۔ انہوں نے کہا کہ جائز طریقے سے منافع کمانے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ منافع کمانے کو غلط کہنے سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کی برآمدات بڑھیں، صنعتی ترقی کا عمل تیز ہو تاکہ غربت میں کمی آئے۔ ہم صنعتی شعبہ کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ایف بی آرمیں اصلاحات لا رہے ہیں۔ خودکار نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ رشوت اور کاروباری طبقے کو خوفزدہ کرنے کا عمل روکنے کے لئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وباءایک مشکل صورتحال تھی، اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان میں لوگ محفوظ رہے ہیں۔ بھارت میں غربت میں اضافہ ہوا، ہم نے جو فیصلے کئے ان سے غریب لوگوں کو فائدہ ہوا۔ صنعتوں کو بچایا اور کاروباری طبقے کو بچایا۔ ایک طرف کورونا سے لوگوں کو بچانا تھا اور دوسری طرف ملکی معیشت کو بھی بچانا تھا۔ معاشی سرگرمیوں اور عوام کے تحفظ میں توازن پیدا کرنا تھا۔ ہمارے اقدامات کا مقصد کاروبار میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے مثال دی ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے کورونا وباءکی روک تھام میں اہم کردارادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وباءکی دوسری لہر باعث تشویش ہے، ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا تاکہ ہماری کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں اور غربت نہ بڑھے۔ خدانخواستہ کورونا کی صورتحال بگڑی تومعیشت بھی متاثر ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ جب پہلے یہاں آئے تھے تو اس وقت صنعتیں اور پاور لومز بند ہو رہی تھیں، مشکل حالات تھے، برآمد کنندگان کو مراعات دینے سے برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں بحال ہونے سے آج لیبر بھی نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے کہیں گے کہ وہ صنعتی شعبہ کے لئے ہنر مند افرادی قوت کی فراہمی کے لئے ہنر مندی کی تربیت کے ادارے بنائیں۔ کاروباری طبقہ مزید سرمایہ کاری کرے، موجودہ حکومت آپ کے مسائل حل کرے گی، سہولیات دیں گے۔ ہمارا کام صنعتوں کی مدد کرنا ہے، ہمیں برآمدات میں اضافہ کے لئے ویلیو ایڈیشن کرنی ہے، اس کے لئے ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد کی سڑکوں کو بہتر بنائیں گے۔ کراچی بھی ملک کا صنعتی مرکز ہے، اس کی ترقی کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے۔ 1960ءکے بعد پہلی حکومت برسراقتدار آئی ہے جس کی یہ پالیسی ہے کہ ہم نے ملک میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اس وقت پاکستان کے اشاریئے مثبت ہیں۔ کنسٹرکشن انڈسٹری چل پڑی ہے، اس سے منسلک صنعتیں بھی چلیں گی۔ اس کے لئے بھی ہم نے پیکیج دیا ہے۔ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور دولت کے پھیلائو کے لئے صنعتی سرگرمیاں اہم ہیں۔ صنعتی عمل کی ترقی کے لئے تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت کریں گے۔