اسلام آباد۔17فروری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے دنیا میں غربت اور افلاس کے خاتمہ کیلئے پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائیدار زرعی بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری ، زرعی اور خوراک کی مصنوعات کیلئے مناسب اور منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے ، خوراک کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی اور مہارتیں اپنانے ، زراعت اور صنعتی شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال اور خوراک کی کھپت اور پیداوار کے طریقوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ہمیں مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی، دنیا کو کورونا وبا سے نمٹنے کے دوران مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے، یا تو ہم اکٹھے ختم ہو جائیں گے یا پھر مل کر چیلنجز سے کامیاب ہو کر نکلیں گے، کسانوں کو کارپوریشنز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، پاکستان میں زرعی شعبہ کیلئے فنڈز میں تین گنا اضافہ کیا گیا ہے، سی پیک میں زرعی شعبہ میں جدت لانے کے کام کو بھی شامل کیا ہے، پاکستان کی حکومت نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو اپنی ترجیح بنایا ہے، کورونا وبا میں احساس پروگرام کے ذریعے مالی مشکلات کے باوجود غریب خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کی ہے، اگلے تین سال میں پاکستان میں 10 ارب درخت لگائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی کی گورننگ کونسل کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ زراعت انسانی بقا کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے، بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی نے ترقی پذیر ممالک میں زرعی پیداوار بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آج دنیا کو زرعی بحران کا سامنا ہے، دنیا کی آبادی جلد ہی 8 ارب تک پہنچ جائے گی جبکہ 60 کروڑ افراد افلاس کا شکار ہوں گے اور 10 کروڑ بچے غذائی قلت کے باعث مسائل کا شکار ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ بدقسمتی سے کورونا وبا کے باعث مزید 10 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیں، 20 سے زائد ممالک کو غذائی قلت کا سامنا ہے، عالمی ادارہ خوراک نے بعض غریب ترین ممالک اور انتشار کے شکار علاقوں میں قحط کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو کورونا وبا سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے ابتدائی دو اہداف غربت اور افلاس کے خاتمہ کے حوالہ سے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے، اس سلسلہ میں مالی وسائل اور سرمایہ کاری میں کمی، تجارتی مسائل ، پیداوار اور کھپت کے غیر روایتی طریقے ، زرعی زمین اور جنگلات میں کمی، پانی کا بحران، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودہ دریا اور سمندر جیسے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مستقبل کے اپنے وژن میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے، کورونا وبا اور موسمیاتی بحران کے حوالہ سے امیر ہوں یا غریب ، کمزور ہوں یا طاقتور سب کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ ان کے مقدر آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ہم یا تو اکٹھے ختم ہو جائیں گے یا پھر مل کر کامیاب ہو کر چیلنجوں سے نکلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی یا عالمی تسلط ، غیر ملکی مداخلت اور قبضے کے سیاسی فوائد اور لوگوں پر ظلم و جبر کے حوالہ سے جغرافیائی اور سٹرٹیجک رکاوٹوں کا تصور دور نہیں رہا اور چیزیں جلد ہی غیر متعلق نظر آئیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں عالمی سطح پر معاملات کی بہتری اور تمام انسانیت کی بقا اور خوشحالی کیلئے مشترکہ منصوبے اور ترجیح کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے انہوں نے اپریل میں قرضوں میں ریلیف سے متعلق عالمی اقدام کی تجویز پیش کی تھی، جی 20 ممالک اور عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی طرف سے قرضوں کی معطلی کے اعلان سے کچھ ریلیف حاصل ہوا ہے لیکن تازہ ترین اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو کورونا وبا کے اثرات سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے 4.3 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ دسمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں انہوں نے کورونا وبا کے بحران کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کی مدد کیلئے فوری مالی وسائل پیدا کرنے کے مختلف اقدامات تجویز کئے تھے جن میں قرضوں میں جامع ریلیف اور تنظیم نو ، 500 ارب ڈالر کے فنڈ کے قیام، بڑے پیمانے پر رعایتی مالی وسائل اور ترقی پذیر ممالک سے محفوظ مقامات اور امیر ممالک کو رقوم کی غیر قانونی منتقلی روکنے اور ان کی وصولی جیسی تجاویز شامل تھیں لیکن اگر ہمیں غربت اور افلاس کو ختم کرنا ہے تو اس سے مزید آگے جانا ہو گا، اس سلسلہ میں پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کر رہا ہوں۔ پہلے ، ہمیں زرعی سامان اور خوراک کی مصنوعات کی نقل و حمل ، پیداوار اور تقسیم میں سہولت دینے کیلئے پائیدار زرعی بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں چین کی طرف سے قائم کیا جانے والا(دی گرین لینز)ایک اچھی مثال ہے۔ دوسرے، حکومتوں کو زرعی اور خوراک کی مصنوعات کیلئے مناسب اور منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے کیلئے مزید سرگرمی سے کام کرنا ہو گا، نام نہاد ’’میجک آف مارکیٹ پلیس‘‘ میں ریاست کی طر ف سے واضح توازن پیدا کرنا چاہئے، پاکستان میں اجارہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ہے، کسانوں کو کارپوریشنز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی زرعی تجارت کو بھی بہتر بنایا جانا چاہئے، بعض امیر ممالک کی طرف سے بڑے پیمانے پر دی جانے والی زرعی سبسڈیز عالمی مارکیٹ کو متاثر کرتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے کسانوں کیلئے اس میں مسابقت ناممکن ہو جاتی ہے۔ تیسرے، خوراک کی پیداوار بڑھانے ، پانی اور زمین کے موثر استعمال کو یقینی بنانے اور سب سے بڑھ کر بہتر معیاری بیج کی فراہمی کیلئے نئی اور جدید زرعی ٹیکنالوجیز اور مہارتوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی اور عالمی ادارہ خوراک اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چوتھے، ہمارے زرعی اور دیگر معاشی شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہمیت رکھتا ہے، قومی اور عالمی سپلائی میں رابطہ کیلئے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ کی رسائی دی جانی چاہئے۔ پانچویں، ہمیں خوراک کی کھپت اور پیداوار کے طریقوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی جھیلوں ، دریائوں اور سمندروں میں آلودگی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطرناک کیمیکلز کے بغیر کم پانی کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگلے سال خوراک کے حوالہ سے سربراہ اجلاس میں خوراک کی پائیدار پیداوار اور کھپت کی نئی حکمت عملی کو زیر غور لایا جانا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں پائیدار ترقی کے اہداف کو قومی ترقیاتی منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے اور حکومت نے پائیدار ترقی کے اہداف ، غربت اور افلاس کے خاتمہ کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود کورونا وبا کے دوران ہم نے تقریباً 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج فراہم کیا ہے، اس میں خواتین اور بچوں سمیت غریب ترین خاندانوں اور کمزور افراد کو نقد ہنگامی امداد فراہم کی گئی ہے اور یہ مالی امداد احساس پروگرام کے ذریعے دی ہے جس کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بیس کا استعمال یقینی بنایا گیا ہے، یہ پاکستان کی تاریخ میں غربت کے خاتمہ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ وزیراعظم نے زرعی شعبہ کے حوالہ سے کہا کہ ہمیں گذشتہ سال کووڈ۔19 اور ٹڈی دل کے حملوں کے دو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان چیلنجوں سے نمٹنے پر خصوصی توجہ دی گئی، اس سلسلہ میں زرعی شعبہ کیلئے بجٹ میں تین گنا اضافہ کیا ہے اور رواں مالی سال کیلئے اس شعبہ کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ درخت لگانےکا پروگرام شروع کیا گیا ہے اور اگلے تین سال میں 10 ارب درخت لگائے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت زرعی شعبہ میں جدت لانے کا عمل بھی شامل کیا گیا ہے، اس سے ہمیں غربت اور افلاس سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے پائیدار ترقی کے فروغ اور غربت اور افلاس کے خاتمہ کی قومی کوششیں عالمی تعاون سے کامیاب ہو سکتی ہیں، ہم تمام ممالک کے ساتھ ایسے ہی تعاون کے خواہاں ہیں اور بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی کی طرف سے تعاون کے فروغ کے حوالہ سے ادا کئے جانے والے کردار کو سراہتے ہیں۔