اسلام آباد/ اقوام متحدہ ۔18فروری (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نےکہا ہے کہ نسل پرستانہ سوچ کے خلاف ہمیں موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، سماجی تفریق کے خاتمہ کیلئے کوششیں وقت کا اہم تقاضا ہے ،عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نسلی عدم مساوات کے پیدا ہونے کے بنیادی اسباب و محرکات کا سدباب اور دیرپا ترقی کے اہداف کے ایجنڈے 2030 کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور یکساں بنیادی مساوات کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعادہ کرے ۔اس بات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی معاشی وسماجی کونسل (ایکوساک) کے خصوصی اجلاس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع ’’دیرپا ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے دنیا میں مساوات قائم کر کے نسل پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت و بیزاری اور امتیازی سلوک کا خاتمہ‘‘ تھا ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دیگر پہلوئوں کے ساتھ نو آبادیاتی نظام نے بھی معاشروں کے اندر تقسیم پیدا کی ، منظم خطوط پر عصر حاضر میں روا عدم مساوات کے رویوں میں کمی، نسل پرستی کا خاتمہ دیرپا ترقی کے ایجنڈے 2030 کا بنیادی مقصد ومدعا ہے ۔’ایس جی ڈیز’ کی سوچ اور جذبہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں “کوئی بھی پیچھے نہ رہنے پائے” اور یہ سوچ واضح طور پر نسل پرستی سمیت ہر طرح کے غیر مساویانہ رویوں کی نفی کرتی ہے ۔تاہم دنیا بھر میں نسلی مساوات کا طرز عمل خطرات سے دوچار ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ نسلی منافرت کا اظہار، مذہبی احساس برتری اور پر تشدد قوم پرستی گمنامی سے نکل کر مرکزی سیاسی دھارے میں سرایت کر چکی ہے ،متشدد قوم پرست گروہوں کے سر اٹھانے سے سیاستدانوں کے نسل پرستانہ رویوں، اسلاموفوبیا کی نفوذ پذیری سے نسلی بنیادوں پر مسلمانوں کی شناخت کرانے، افریقی نژاد افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا طاقت کا بیہمانہ استعمال دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کے عزت و وقار کو بری طرح روند کر خطرناک ترین درجے تک پہنچ چکا ہے ،حتی کہ ہمارے اپنے خطے میں نفرت انگیز سیاسی بیانیے کے ذریعے نسلی امتیاز کی آگ بھڑکائی جارہی ہے ، بے سہارا مذہبی اور نسلی گروہوں کے خلاف غالب اکثریت کے پرتشدد رویوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں امتیازی قوانین بنائے گئے، عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا،اپنے منصفانہ وجائز “حق خود ارادیت” کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو مسلسل جبرواستبداد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وزیر خارجہ نے کہاکہ کورونا عالمی وبائی چیلنج نے اس تقسیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے نسلی تفریق بڑھ چکی ہے اور عدم مساوات کو فروغ ملا ہے ،اس وبا نے نسلی اکائیوں کو غیر متناسب انداز میں متاثر کیا ہے غربت کی شرح اور بے روزگاری میں اضافے ، بیماریوں کے حملے اور بڑھتی ہوئی شرح اموات نے انہیں مزید کمزور کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہنگامی اقدامات کے حوالے سے بھی ان کے ساتھ سخت سلوک کیا گیا اورانہیں طبی سہولیات تک یکساں رسائی نہیں دی گئی ،اس عالمی وبا نے بھی نسل پرستی اور زینوفوبیا جیسے جذبات کو بڑھاوا دیا ہے ڈی پورٹ، قرنطینہ، دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے ورکرز کی تقسیم (جن میں کثیر تعداد ترقی پذیر ممالک سے ہے) جیسے عوامل کو اسی وبا کے سبب جھیلنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات مذہبی،نسلی او لسانی بنیادوں پر اقلیتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور نفرت آمیز بیانیے کے ذریعے ان کی دل آزاری اور توہین کی گئی ، انہیں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور یہ ساری صورتحال ہمارے خطے میں پیش آ چکی ہے ۔انہوں نے کہاکہ بلا شک و شبہ ہمیں کورونا کے ساتھ ساتھ ایک اور وائرس کا بھی سامنا ہے جسے “نفرت” کے نام سے جانا جاتا ہے۔عرصہ دراز سے نسل پرستی اور منظم عدم مساوات لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول آگے بڑھنے سے محروم کیے ہوئے ہیں۔بالخصوص افریقی شناخت والے دنیا کے پیشتر حصوں میں ناقابل برداشت امتیازی سلوک برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں ،عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی نسلی عدم مساوات (جو نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہو یا جن کا پس منظر تاریخی ہو) کے پیدا ہونے کے بنیادی اسباب و محرکات کا سدباب کرے ۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ جنرل اسمبلی نے تسلیم کیا ہے کہ “نوآبادیاتی تسلط کی باقیات، غیرملکی قبضہ، نسلی امتیازات، نسلی تعصب اور جدید نو آبادیات کی تمام صورتیں ترقی پذیر ممالک اور ان کے باسیوں کی نجات اور ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کاکہاکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اپنے سالانہ نیلسن منڈیلا خطاب میں کہا تھا کہ نوآبادیاتی نظام قوموں کے اندر اور مابین وسیع عدم مساوات کا موجب ہے،اگرچہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں نو آبادیاتی نظام سے دستبرداری کی فضا ہموار ہوئی لیکن آج بھی بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی نظام میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس بات کا مشاہدہ امتیازی عالمی تجارتی و معاشی ڈھانچے کی صورت میں کرتے چلے آ رہے ہیں ،اس کی ایک جھلک اقتصادی و سماجی ناانصافیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی عدم شمولیت پر مبنی نوعیت میں دیکھی جا سکتی ہے ،کئی معاشروں میں آج بھی زینوفوبیا اور نسل پرستی کی پروردہ، امتیازی نقل مکانی و ملازمتی پالیسیاں برقرار ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ڈربن کانفرنس کے دو دھائیوں بعد، نسل پرستی اور زینوفوبیا کے مابین تسلیم شدہ تعلق اور اس سے متعلقہ عدم برداشت کے رویوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ایس جی ڈیز کے تحت ان عوامل کا خاتمہ کرنا ہوگا ،بلاشبہ یہ عالمی برادری کیلئے ایک موزوں ترین وقت ہے کہ وہ دیرپا ترقی کے اہداف کے ایجنڈے 2030 کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور یکساں بنیادی مساوات کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعادہ کرے۔انہوں نے اس حوالے سے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ دیرپا ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ماضی کی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ، نسلی، قومی و مذہبی مساوات کی ترویج کو مقاصد کا حصہ بنایا جائے ، افریقی شناخت رکھنے والوں اور دیگر امتیازی رویوں کا سامنا کرنے والی قومیتوں اور گروہوں کی معاشی بہتری کیلئے، متعلقہ ریاستوں کی جانب سے پیش کیے گئے ایکشن پلان کو اپنایا جائے، عالمی اداروں اور اعلیٰ عہدوں پر افریقی شناخت رکھنے والوں کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے ،اسلاموفوبیا اور دیگر متشدد قوم پرست گروہوں کے بڑھتے ہوئے رحجانات کے تدارک کیلئے عالمی اتحاد بنانے کی ضرورت ہے ۔وزیر خارجہ نے کہاکہ شدت پسندی، منظم نسلی امتیازات اور بے دخلی کا عمل، بہت سی ریاستوں کی سیاسی، قانونی اور اخلاقی اساس کی بقا کیلئے زہر قاتل ہے ،ہمیں نسلی و دیگر تعصبات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی ۔ انہوں نے کہاکہ دیرپا ترقی کے اہداف 2030 کے ایجنڈے کے مطابق ہمیں “کسی کو پیچھے نہیں چھوڑنا ہے” ۔