اسلام آباد،2فروری (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فدا محمد کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ پیسکو میں کنڈا سسٹم کے ذریعے بجلی چوری کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا اور اس حوالے سے ہم نے اپنے تمام یونین کونسلوں میں رضاکاروں کی ٹیم بنا کر لوگوں کو مائل کیا ہے کہ بجلی کے میٹر لگوا کر ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے اوپر بجلی چوری کا دھبہ ختم کروائیں۔ ہزاروں لوگ میٹر کیلئے تیار ہیں مگر سی ای او پیسکو کی عدم دلچسپی کی وجہ سے معاملات میں بہتری نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ حکام خود کنڈا کلچر کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان کو آمدن ملتی رہے۔ ادارے کی جانب سے غریب گھر جس میں ایک پنکھا اور دو بلب ہوتے ہیں 5 لاکھ کا بل بھیج دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکام کی ملی بھگت کی وجہ سے بجلی کے کاموں میں کرپشن کی بھر مار نظر آتی ہے۔ پرانے ٹرانسفارمرز کی پرائیوٹ ورکشاپوں سے مرمت کرا کے نئی قیمت بتائی جاتی ہے۔ چیف انجینئر پیسکو نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران 81 ہزار نئے بجلی کے میٹر لگائے گئے ہیں۔ جن میں پشاور میں تقریباً16 ہزار، خیبر 13 ہزار، مردان9700، ہزارہ(I)6700، سوات21000، بنوں 4000، ہزار(II)6 ہزار اور صوابی میں 3800 لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے شمار مقامات پر زمین کی ملکیت کے مسائل ہیں۔ لوگ جن گھروں میں رہ رہے ہوتے ہیں وہ ان کے ذاتی نہیں ہوتے۔ جس پر سیکرٹری بجلی نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ میٹر کی تنصیب میں اس رکاوٹ کو ختم کر دیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ کنڈا کلچر کے خاتمہ کیلئے میٹروں کی تنصیب انتہائی ضروری ہے۔ محنت سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لائے ہیں۔ اضافی بل بھجوانے سے مسائل پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں بھی یہی مسائل ہیں۔ اور پشاور کے ارد گرد لاکھوں کی آبادی ہے مگر وہاں بھی ایک میٹر نہیں لگایا گیا۔ لوگ تیار ہیں حکام کی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ واپڈا کے حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ پارلیمنٹرین تک واپڈا کے ہاتھوں تنگ ہیں اور ادارے میں سٹاف کی کمی کو بہتر کر کے معاملات ٹھیک کیے جائیں۔ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ کیسکو سے ہمارے علاقے میں 1970 سے ایک گرڈ اسٹیشن سے بجلی فراہم کی جاتی ہے مگر گزشتہ تین سالوں سے اس گرڈ پر غیر متعلقہ علاقے بھی شامل کیے گئے ہیں اور ہمارے 18 ٹیوب ویلز کو دوسری لائن پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہمارے علاقوں میں بجلی کا لوڈ بہت بڑھ چکا ہے ہمار ا پرانا نظام بحال کیا جائے۔ کیسکو حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ تمام گرڈز اوور لوڈڈ تھے۔ منصوبہ بندی کر رہے ہیں جلد بہتری لائی جائے گی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیوب ویلز کو ٹیوب ویلز والی لائن پر منتقل کیا گیا ہے جن کو پالیسی کے مطابق 8 گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مکران ڈویژن کی عوام کو بجلی کی فراہمی کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مکران کو اصل مسئلہ مین گرڈ سے کنکشن کا ہے۔ کام کر رہے ہیں۔ گوادر میں 300 میگاواٹ کا کوئلے کا منصوبہ لگ رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مکران میں 50 میگاواٹ سولر کا منصوبہ تھا اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جس پر سیکرٹری بجلی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں گی۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ کمیٹی کے ایجنڈے پر ادارے کی جانب سے پیش رفت رپورٹ موثر نہیں ہے۔ حکام کو منصوبوں کے حوالے سے معلومات کافی کم ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو وزارت توانائی کے2021-22 کے پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی میں 155.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے 97 ارب غیر ملکی فنڈنگ،36 ارب مقامی بنکوں اور 23 ارب حکومت پاکستان فراہم کرے گی۔کل94 منصوبے ہیں جن میں سے 80 جاری اور14 نئے منصوبے ہیں۔ منصوبہ جات میں این ٹی ڈی سی کے زیادہ منصوبے ہیں۔ جنکو کے 2 منصوبے 40 ارب کے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے 61 منصوبے 93 ارب روپے کے ہیں۔ تمام فنڈز کی موجود ہیں کچھ زمین کے مسائل ہیں۔ لیسکو کا ایک منصوبہ 2 ارب کا ہے اور آئیسکو کا ایک منصوبہ 5 ارب کا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کیسکو کے 24 منصوبے ہیں 6 پرانے ہیں جن میں سے3 اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ مکران کا منصوبہ 2023 میں مکمل ہوگا۔ پیپکو کے4 منصوبے 3.4 ارب کے ہیں۔سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ ایس جی ڈیز کے 2018 کے منصوبے تھے جن کے فنڈز مختص کیے گئے تھے اور جون میں کمیٹی کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ میٹریل بھی جاری ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ٹرانسفامر اور کھمبے زمین پر پڑے ہیں مگر ٹیسکو کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی فدا محمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ سابق فاٹا کے اضلاع میں تمام ایکس ای اینز اور ایس ڈی اوز کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے کام کو سنجیدہ لیا جائے اور متعلقہ ادارے پوری لگن سے منصوبہ جات کو مکمل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ قائمہ کمیٹی نے سی ای او ٹیسکو کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وضاحت فراہم کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے این ٹی ڈی سی کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے اسلام آباد منتقل کرنے کی سفارش بھی کر دی تاکہ امور آسانی سے سرانجام دیے جا سکیں۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ جاپان کی ایک کمپنی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ نیپرا نے لائسنس بھی جاری کر دیا ہے۔ ۔ قائمہ کمیٹی نے معاملے کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی، کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، مرزا محمد آفریدی، مولوی فیض احمد، بہرہ مند خان تنگی اور ہدایت اللہ کے علاوہ سیکرٹری وزارت پاور، سپیشل سیکرٹری پاور اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔