ایک متنازعہ رپورٹ کی بنیاد پر  راولپنڈی رنگ روڈ  منصوبہ کو روکنے کی کوشش کی گئی، موجودہ حکومت اسے ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا عزم رکھتی ہے،  وفاقی وزیر  غلام سرور خان کی پریس کانفرنس

22

اسلام آباد،17مئی (اے پی پی):وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی طرح اہم قومی منصوبہ ہے، ماضی کی حکومتوں نے اس اہم قومی منصوبہ کو نظر انداز کیا، موجودہ حکومت منصوبہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا عزم رکھتی ہے، منصوبہ کی الائنمنٹ میں تبدیلی کسی سیاسی مفاد کیلئے نہیں بلکہ تکنیکی بنیادوں پر ماہرین نے تجویز کی، اب ایک متنازعہ رپورٹ کی بنیاد پر منصوبہ کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے جس پر وفاقی کابینہ میں بھی آواز اٹھاؤں گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس منصوبہ کی الائنمنٹ پر جو واویلا ہوا اور جو انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی اس کی سربراہی کمشنر راولپنڈی کر رہے تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اس کے اراکین تھے جبکہ ایک رکن انہوں نے اس میں شامل کرنا تھا، اس انکوائری کمیٹی کی جو رپورٹ مرتب کی گئی اس پر اراکین نے دستخط نہیں کئے اور صرف کنوینئر نے دستخط کرکے یہ رپورٹ ارسال کر دی جس پر وزیراعلیٰ کی طرف سے نوٹس لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی انتہائی ایماندار افسران ہیں انہوں نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے لیکن رپورٹ کی توثیق نہیں کی جس کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ رپورٹ متنازعہ ہو گئی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ معاملہ میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اٹھاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ  اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی دوبارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان حقائق کو سامنے لایا جا سکے جو اس اہم منصوبہ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ نووا ہاؤسنگ سوسائٹی کے حوالہ سے انہوں نے وضاحت کی کہ اس سوسائٹی سے بھی میرا کوئی فنانشل تعلق نہیں اور نہ ہی میں نے اور میرے خاندان نے اس پراجیکٹ کیلئے کوئی زمین خریدی اور نہ ہی کوئی زمین موجود ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیٹی ہو یا انکوائری رپورٹ اس میں میرا نام کہیں بھی نہیں ہے لیکن جو بات میڈیا میں زیر بحث آئی اس میں میرا نام لیا گیا اس لئے عوامی نمائندہ کی حیثیت سے میں وضاحت ضروری سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نووا کے سول ایوی ایشن کی طرف سے این او سی کا ذکر آیا لیکن یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس این او سی کو بھی ہائیٹ کلیئرنس کیلئے جاری کیا گیا، اس کا رنگ روڈ یا دوسرے کسی تکنیکی معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ اپوزیشن پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل (این) تین تین مرتبہ اقتدار میں رہے لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے، جتنے بھی موٹرویز اور جی ٹی روڈ کے منصوبے دیکھ لیں ان کے ساتھ رنگ روڈ یا بائی پاس موجود ہوتے ہیں لیکن پنڈی کا رنگ روڈ نہیں بن سکا جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے اور ہماری حکومت کی سوچ اور وژن تھا کہ یہ منصوبہ ہم نے بنانا ہے کیونکہ ہم اس منصوبہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ بھلے 2017ء کی الائنمنٹ پر تعمیر ہو یا نئی الائنمنٹ پر، یہ منصوبہ بنانا ناگزیر ہے۔