امریکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے شراکت دار ہو سکتے ہیں لیکن تنازعات میں ساتھ نہیں دے سکتے، جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس نہیں لے گا سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوں گے، وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں خطاب

22

اسلام آباد۔30جون  (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہم افغانستان میں امن کے شراکتدار ہو سکتے ہیں لیکن تنازعات میں ساتھ نہیں دے سکتے، جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس نہیں لے گا بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوں گے، ہم اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، قومی غیرت کے بغیر تاریخ میں آج تک کوئی ملک ترقی نہیں کرسکا،جو دانستہ ٹیکس نہیں دے گا اس کو جیل جانا پڑے گا، خوددار قوم بننا ہے تو ٹیکس دینا پڑے گا،    ہم نے مشکل فیصلے کئے اور معیشت کو استحکام دیا تاہم کورونا کی وجہ سے ایک بار پھر مشکلات پیدا ہوئیں لیکن پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ہماری بہتر حکمت عملی اور اللہ کی مدد سے ہمیں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انتخابات کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے اپنی تجاویز دیں اور پاکستان میں جمہوریت کے روشن مستقبل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کا عمل مکمل ہونے کے بعد اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سب سے پہلے پارلیمانی پارٹی اور اتحادیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس طرح انہوں نے بھرپور طریقے سے بجٹ سیشن میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ اس ملک میں 1970ء کے بعد ہونے والے تمام انتخابات متنازعہ رہے، ابھی سینٹ اور ضمنی انتخاب بھی متنازعہ ہوئے، ہم نے دو سالوں میں کوشش کی کہ ایسی کیا اصلاحات کریں کہ انتخابات کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں اس کے لئے اپوزیشن سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے 21 سال عالمی کرکٹ کھیلی، ہم جس ملک میں کھیلنے جاتے تھے وہاں اس ملک کے اپنے امپائر ہوتے تھے، جو ہارتا وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے ہرا دیا، کوئی اپنی ہار نہیں مانتا تھا۔ میں نے بطور کپتان یہ مہم چلائی اور پاکستان کی کاوشوں سے پہلی بار عالمی کرکٹ میں غیر جانبدار امپائر مقرر ہوئے، اب ہر ہارنے  والا اپنی شکست تسلیم کرلیتا ہے، اس سے کرکٹ میں شفافیت آگئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جب انتخابات میں حصہ لیں تو کسی کو دھاندلی سے شکست کی فکر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے پہلے دن ایوان میں تقریر کی تو مجھے تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ اس وقت اپوزیشن کا یہ موقف تھا کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تو ان سے اس ضمن میں ثبوت مانگے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے جب 2013ء میں چار حلقے کھولنے کا کہا تو یہ نہیں کھولے گئے، ہم نے عدالتوں میں کیس لڑ کر یہ حلقے کھلوائے  تو چاروں میں دھاندلی ثابت ہوئی۔  2015ء میں جوڈیشل کمیشن کی فائنڈنگ تھی کہ بے ضابطگیاں پولنگ کے خاتمے اور نتائج مرتب کرنے اور اس کے اعلان تک ہوتی ہیں،ہم  اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا حل الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے۔ اس نظام میں جونہی پولنگ کا اختتام ہوتا ہے تو ساتھ ہی نتیجہ سامنے آجاتا ہے اس پر جو سوال اٹھانا چاہیں تو وہ بھی اپنے وقت پر اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس سلسلے میں اپنی تجاویز سامنے لائے، ہم سننے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کریں گے تو  نتائج متنازعہ رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارا وژن قوم کا عکاس تھا، خوشی ہے کہ شوکت ترین اور ان کی ٹیم نے میرے وژن کے مطابق بجٹ بنایا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب 25 سال پہلے ہم نے پی ٹی آئی بنائی تو ہم نے جس چیز سے متاثر ہوکر یہ اقدام اٹھایا وہ نظریہ پاکستان تھا جس کی بنیاد اسلامی فلاحی ریاست تھی۔ یہ نظریہ ہمارے آبائو اجداد نے مدینہ کی ریاست سے لیا تھا جو دنیا میں پہلی فلاحی ریاست تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کو اس وژن کے مطابق نہیں ڈھالتے تو پاکستان کے قیام کا مقصد باقی نہیں رہتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے وژن کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اس مطالبے پر متفق تھے کہ مسلمانوں کے لئے اپنا علیحدہ وطن ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے راستے میں جہاں بھی رکاوٹ آئی اس کی بنیادی وجہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں سے ہٹ جانا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کیا چیز تھی کہ جس کی بنیاد پر دنیا کی عظیم تہذیب کھڑی ہوئی، جب نبیۖ ﷺ مدینہ پہنچے تو وہاں انہوں نے جو اصول طے کئے وہ دنیا کی تاریخ ہے۔ 13 سال بعد بازنطینی سپر پاور نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے جبکہ 14 سال بعد پرشین نے گھٹنے ٹیکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی تہذیب دنیا کی سب سے عظیم تہذیب تھی، آج بھی جدید دنیا اسی ماڈل پر بنی ہے۔ سائنس و میڈیسن سمیت ہر شعبہ اسی ماڈل پر آگے بڑھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب ہماری تہذیب پستی کا شکار ہوئی تو پھر ہم بھی نیچے آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کے سامنے انصاف ، انسانیت اور خودداری کے تین اصول تھے، ہماری کوشش تھی کہ ہماری حکومت کا یہ بجٹ انہی اصولوں کا عکاس ہو۔ اس پر پوری ٹیم کو خراج تحسین اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا جو 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا، اس وقت ہمارے پاس ٹیم اور تجربہ نہیں تھا، ہم نے معیشت کے استحکام کے لئے بڑے مشکل فیصلے کئے۔ یہ بڑے تکلیف دہ تھے، کیونکہ جب ایک گھر مقروض ہو جاتا ہے تو اسے اپنے اخراجات کم اور آمدن بڑھانا پڑتی ہے اس کے لئے مسائل ہوتے ہیں۔ گھر والوں کو مشکل وقت سے گزرنا پڑتا ہے، ہمارے لئے بھی یہ مشکل فیصلے تھے اس سے عوام کو بھی تکلیف پہنچی اور کہیں اب بھی عوام اس سے گزر رہے ہیں تاہم مشکلات کا شکار ملک میں ایسے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ترکی میں رجب طیب اردوان نے بھی ایسے ہی فیصلے کئے، اب ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری ٹیم نے مشکل فیصلے کئے، چیلنجز کا سامنا کیا اور اس سے نکلے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ جب کرنسی کی قدر گرتی ہے تو اس سے ملک میں مہنگائی آتی ہے، سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ شروع میں ان کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں کیونکہ ان کی شرائط سے لوگوں کو مشکلات پیدا ہوتی ہیں تاہم ہمیں مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ہم ملکی معیشت  کے چیلنج سے کامیابی سے نکل رہے تھے کہ کورونا کی وباء آگئی، جس کے اثرات ساری دنیا پر پڑے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسد عمر کی سربراہی میں این سی او سی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس صورتحال میں بھرپور کردار ادا کیا، پاک فوج نے بھی بھرپور مدد کی۔ ڈاکٹر فیصل اپنی ماہرانہ رائے دیتے رہے کہ دنیا میں یہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم خوش قسمت قوم ہیں کہ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ہم کورونا وباء سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے، ان کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بچا لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال سے جس طرح ہم نکلے میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غریبوں کی بات سنی۔ ہم اس لئے اس صورتحال سے نکلے کہ ہم نے بروقت مکمل لاک ڈائون نہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ دنیا میں اب جب حقائق سامنے آرہے ہیں تو لاک ڈائون سے غریبوں کی مشکلات کے نتائج سامنے آئے ہیں، جہاں لاک ڈائون لگا وہاں غربت بڑھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ اگر لاک ڈائون لگائیں گے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے دیہاڑی دار طبقہ کو ہوگا، اس مقصد کے لئے ہم نے تعمیرات، ہائوسنگ اور زراعت کے شعبوں کو جلد سے جلد کھولنے کی کوشش کی، اسی طرح برآمدی صنعت کو کھولا گیا۔ اس دوران سٹیٹ بنک نے صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کی پوری طرح سے مدد کی، احساس پروگرام کے تحت ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو نقد معاونت فراہم کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی بنک نے احساس پروگرام کو سماجی تحفظ کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا موثر پروگرام قرار دیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی معیشت بحال ہوئی۔ حکومت نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کی، اگرچہ اس پر تنقید بھی ہوئی مگر ہماری حکمت عملی کامیاب رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس دوران پاکستان کے دیہی علاقوں میں ٹڈی دل کا حملہ ہوا، ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام قائم کیا گیا۔ سید فخر امام اور این سی او سی نے اس میں بہتر طریقے سے کام کیا حتیٰ کہ عید کے موقع پر بھی ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے اقدامات جاری رہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بچایا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں قومی معیشت میں چار فیصد بڑھوتری ہوئی ہے۔ حکومت نے زراعت کو پروموٹ کیا جس کی وجہ سے فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، اس سال گنے کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، ان اقدامات سے ہماری معیشت اٹھی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ گنے کے کاشتکاروں کو وقت پر پورا پیسہ ملے۔ پہلی بار کسانوں کے پاس پیسہ براہ راست منتقل ہوا، موسم بھی ٹھیک رہا اور کسانوں نے پیسہ دوبارہ انویسٹ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے زراعت پر سالوں سے کوئی توجہ نہیں دی، اگر ہم کسانوں اور زراعت پر توجہ دیں گے تو ہماری پیداوار بھی بڑھے گی اور غذائی اشیاء کی درآمد کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے برآمدی صنعت کو مراعات دیں جس کی وجہ سے رواں سال برآمدات میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ صرف جون کے مہینے میں پاکستان نے 2.7 ارب ڈالر کی برآمدات کی ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسی طرح تعمیرات کی صنعت کو مراعات دی گئیں اور اس صنعت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا گیا، تعمیرات کی صنعت سے وابستہ لوگوں سے مذاکرات کئے گئے، اس صنعت سے 30 سے زائد صنعتیں منسلک ہیں، تعمیرات کے شعبے میں سرگرمیوں کی وجہ سے گروتھ ریٹ کو بڑھانے میں مدد ملی۔ وزیراعظم نے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سمت بہت واضح ہے۔ ہم برآمدات پر مبنی بڑھوتری کا راستہ اختیار کر رہے ہیں، اس وقت برآمدات میں اضافے کے لئے مشینری درآمد کی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہماری درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ حکومت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پر بھی توجہ دے رہی ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 9 فیصد سے زیادہ گروتھ ہوئی ہے، اب چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پر توجہ دی جارہی ہے۔ ایس ایم ایز کو قرضے دینے کے لئے طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے، اس مقصد کے لئے قوانین اور ضوابط کو آسان بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں بھی اقدامات کئے جارہے ہیں، پنجاب حکومت نے کسان کارڈ کا پروگرام شروع کیا ہے، اس کے تحت تمام کسان رجسٹرڈ ہوں گے۔ حکومت چھوٹے کسانوں کو براہ راست کھادوں اور فصلوں کے لئے کیڑے مار ادویات پر سبسڈی دے گی۔ چھوٹے کسان حکومت کی ترجیح ہیں کیونکہ ہمارے 70 فیصد کسان چھوٹے کسان ہیں۔ حکومت نے زراعت کے لئے 60 ارب روپے سے زائد رکھے ہیں، اس میں سبسڈیز بھی شامل ہیں۔ زرعی شعبے میں تحقیق بالخصوص جدید بیجوں پر تحقیق پر توجہ دی جائے گی۔ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے، غذائی سلامتی ہمارا مسئلہ ہے، اس وقت ہم گندم، چینی، چاول اور خوردنی تیل درآمد کر رہے ہیں۔ حکومت نہ صرف پیداوار بڑھائے گی بلکہ کسانوں کو مراعات بھی دی جائیں گی۔ چھوٹے کسانوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا انہیں قرضے دینے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسان مارکیٹوں کے قیام میں چین کے تجربات سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ چین میں کسانوں کو ریٹیل مارکیٹ سے جوڑا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو اشیاء سستی مل رہی ہیں، کسانوں کو بھی زیادہ پیسہ مل رہا ہے جبکہ مڈل مین کا خاتمہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خالص دودھ کی پیداوار بھی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دودھ بچوں کے لئے پروٹین اور کیلشیم سے بھرپور غذا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر کھلا دودھ ملاوٹ شدہ ہوتا ہے، خالص دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لئے گائے اور بھینسوں کی جینیاتی طور پر بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے، اس مقصد کے لئے بیرونی تعاون حاصل کیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں دو سالوں میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انسانیت، انصاف اور خودداری کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سماجی تحفظ کے لئے سب سے زیادہ فنڈز اکٹھے کئے گئے ہیں۔ تاریخ میں معاشی طور پر کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے کے لئے اتنے فنڈز مختص نہیں کئے گئے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کے ابتدا میں مسلمان بہت غریب تھے، نبی کریمۖ ﷺ نے آغاز ہی میں کہا کہ معاشی طور پر کمزور طبقہ کی ذمہ داری ریاست کی ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو آغاز سے جس طرف جانا چاہیے تھا وہ اس طرف نہیں گیا۔ مدینہ کی ریاست میں ٹریکل ڈائون کا طریقہ کار نہیں تھا بلکہ اس کی بجائے پہلی مرتبہ ریاست نے نچلے طبقات کو اٹھانے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں خوشحالی آئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایمان والے لوگ کوشش کرتے ہیں، جب ہم  معاشی طور پر کمزور طبقات کا خیال رکھتے ہیں تو اللہ برکت دیتا ہے۔ چین اور ہندوستان کی آبادیاں دو ارب سے زیادہ ہیں، 35 سال پہلے چین بھی اس مقام پر کھڑا تھا جہاں ہندوستان تھا۔ ہندوستان میں آج امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے اس کے برعکس چین نے مدینہ کی ریاست کی طرز پر معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ چین نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس سال چینی صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا ہے کہ چین میں انتہائی غربت ختم کردی گئی ہے، چین ان اقدامات کی بدولت معاشی سپر پاور بن گیا ہے، اس کے برعکس ہندوستان نے یہ اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے وہاں غربت بڑھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ محمد عبدہ بہت بڑے مسلمان سکالر تھے، جب وہ یورپ سے مصر واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ مصر میں مسلمان تو زیادہ ہیں لیکن اسلام کم ہے اس کے برعکس یورپ میں مسلمان نظر نہیں آتے لیکن اسلام نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی اسلام کے اصولوں پر چلے گا وہ کامیاب ہوگا۔ سکینڈے نیویا کے ممالک میں انسانیت کا نظام ہے وہاں انسانوں حتیٰ کہ جانوروں کی بھی قدر ہے۔ حضرت عمر کا قول ہے کہ فرات کے کنارے اگر کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کے ذمہ دار وہ ہوں گے۔ یہ انسانیت کے تقاضوں کا احترام ہے۔ مسلمان ملکوں میں امیر امیر جبکہ غریب غریب ہوتا ہے، اگر ہمارے ہاں خاندانی نظام نہ ہو تو لوگ بھوکے مر جائیں۔ ہمارے سماجی تحفظ کا ڈھانچہ موثر نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ برطانیہ میں مفت اور معیاری تعلیم ملتی تھی، وہاں بیروزگاری پر امداد ملتی ہے، وہاں عدالتوں میں معاونت ملتی تھی، پہلی بار پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کی طرف چل پڑا ہے، ہم نے بجٹ میں 500 ارب روپے کامیاب پاکستان پروگرام کے لئے رکھے ہیں۔ 40 سے 50 فیصد خاندانوں کو اس پروگرام کے تحت لا رہے ہیں اس میں کاشتکاروں اور نوجوانوں کے لئے سود سے پاک قرضے شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ  پنجاب، خیبرپختونخوا ، گلگت بلتستان اور  بلوچستان میں تمام شہریوں کو ہیلتھ انشورنس دی جارہی ہے۔ غریب آدمی پر سب سے بڑا عذاب اس وقت آتا ہے جب اس کے خاندان میں کوئی فرد بیمار پڑ جاتا ہے تو اس کے علاج کے لئے قرض لینا پڑتا ہے اس سے سارا خاندان قرض تلے دب جاتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس اقدام سے ہے ، ایسا اقدام امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی نہیں۔  وہاں بھی ہیلتھ انشورنس کے لئے پریمیم دینا پڑتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ اقدام ایک جدید ہیلتھ سسٹم کی بنیاد ہے۔ اس سے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں نجی اور سرکاری بڑے ہسپتال بنیں گے۔ ان علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں جاتے تھے، اب دیہی علاقوں میں لوگوں کی جانب سے اس کارڈ کے ذریعے علاج کی وجہ سے یہاں نئے ہسپتال بنیں گے، اچھے ڈاکٹر جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نجی شعبہ کے لئے ہم نے اس ضمن میں آسانیاں پیدا کیں، اوقاف اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی انہیں سستے داموں مہیا کریں گے، جو طبی آلات پاکستان میں نہیں بنتے وہ باہر سے منگوانے پر ڈیوٹی وصول نہیں کی جائے گی، یہ انقلابی قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ جو تیسری چیز وہ فنی تعلیم ہے۔ ہر گھر کے ایک فرد کو ہم ہنرمندی کی تعلیم مفت دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ کم آمدنی والے لوگوں کے لئے اپنے گھر کے لئے کم آمدن گھر کا منصوبہ شروع کیا ہے، اس جانب ماضی میں کسی نے نہیں سوچا، اس سے بڑے شہروں میں کچی آبادیاں پھیلتی رہیں، ہم نے عدالتوں سے فور کلوژر لاء منظور کرایا، بنکوں کو عام آدمی کو قرض دینے کے لئے قائل کیا، 40 لاکھ خاندانوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے حوالے سے آئندہ سال ڈیٹابیس مکمل ہو جائے گا۔ ہم ایسا سافٹ ویئر بنا رہے ہیں کہ جس سے یوٹیلٹی اور کریانہ سٹوروں کے پاس ان افراد کا مکمل ڈیٹا ہوگا۔ اس سے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو ضروری اشیاء خوردونوش پر براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت 90 ہزار انڈر گریجویٹس کو سکالر شپس دی جائیں گی۔ پاکستان کی سمت اسلامی فلاحی ریاست کے وژن کے مطابق کردی ہے، ہم نے محنت کشوں کو مفت کھانا اور رہائش فراہم کرنے کے لئے پناہ گاہیں بنائیں، اس کا دائرہ ایسے علاقوں میں بڑھائیں گے جہاں دوسرے علاقوں سے لوگ آکر ملازمتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا دوسرا نکتہ انصاف کا ہے، جس ملک میں غریب اور امیر کے لئے الگ الگ قانون ہوں وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ انصاف، تہذیب کی بنیاد ہے، قانون کی حکمرانی معاشرے کی بنیاد ہے، دنیا میں جس معاشرے میں انصاف تھا وہی معاشرہ اوپر گیا، شیر شاہ سوری نے بڑے بڑے ڈاکوئوں کو کٹہرے میں لایا، جس معاشرے میں جنگل کا قانون ہو وہ پستی میں چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بتا دیں جہاں انصاف ہو اور وہ ملک غریب ہو۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب ممالک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ امیر ممالک میں چلے جاتے ہیں، اس سے مستقبل میں ان غریب ممالک میں تباہی آئے گی۔ غریب ملکوں کی تباہی کی بڑی وجہ منی لانڈرنگ ہے۔ جہاں سے بڑے لوگ پیسہ چوری کرکے باہر بھیجتے ہیں، یہی پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں نیب ایک ایم این اے کو پکڑنے گئی تو وہاں ہجوم نے انہیں پکڑ لیا تاہم پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، یہ جنگل کا قانون ہے۔ نیب کا قانون اور ادارہ 20 سال سے ہے، اب اس پر اس لئے شور مچ رہا ہے کہ اس نے پہلی بار بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی اور قبضہ گروپ ناانصافی کی علامتیں ہیں، لاہور میں ہم نے ایک قبضہ گروپ سے قبضہ چھڑوایا تو شور مچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ اگر سچے ہیں تو وہ عدالتوں کے پاس جائیں، آج عدالتیں آزاد ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے پاکستان میں موجود صلاحیتوں تک پہنچنا ہے تو ہم نے یہ جنگ جیتنی ہے۔ طاقتور لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تیسرا نکتہ خودداری تھی۔ قائداعظم ہمارے ایک عظیم اور خوددار لیڈر تھے۔ خودداری کا درس ہمیں اللہ اور اس کے رسولۖ نے دیا ہے۔ جو اللہ کے سامنے جھکتا ہے وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا چاہے وہ رومن امپائر ہو یا پرشین۔ لاالہ اللہ انسان میں غیرت پیدا کرتا ہے۔ قومی غیرت کے بغیر تاریخ میں آج تک کوئی ملک نہیں اٹھا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھے تھے اس وقت پاکستان نے امریکہ کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جو ذلت اس وقت میں نے محسوس کی وہ کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ہم نے فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت میری اسمبلی میں ایک ہی سیٹ تھی۔ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق تھا، القاعدہ اور مسلح طالبان افغانستان میں تھے، ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ جب یہ فیصلے ہو رہے تھے اور اجلاس ہو رہے تھے اس میں میں بھی شامل رہا، ان اجلاسوں میں بتایا جاتا رہا کہ امریکہ زخمی ریچھ ہے اور ہمیں مدد کرنی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مدد کرنا چاہیے تھی کیونکہ دہشتگردی کا واقعہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد ہم نے جو کیا کیا وہ صحیح تھا، قوم اور ادارے غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ ہم نے اس جنگ میں اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانیاں دیں، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ دنیا میں کرکٹ کی کوئی ٹیم پاکستان نہیں آتی تھی، ہمارے ملک کو دنیا کا خطرناک ملک قرار دیا گیا تھا ۔ جنرل ٹومی فرینک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کمزور ہے، ہم انہیں جو بھی کہیں گے وہ سب کچھ کریں گے۔ پرویز مشرف نے اپنے شہریوں کو گوانتاناموبے بھیجا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ تورابورا آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے تھوڑے لوگ آئے تھے کیونکہ افغانستان کے ساتھ ہماری سرحدیں کھلی تھیں۔ امریکہ کے کہنے پر  ہم نے القاعدہ کے چند سو جنگجوئوں کے پیچھے قبائلی علاقوں میں افواج بھیجیں حالانکہ  قبائلی ہمارے اپنے لوگ تھے، ان پر  ڈرون حملے کئے گئے،  آدھی قبائلی آبادی نے نقل مکانی کی جن کی ابھی تک بحالی نہیں ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ  جب میں ان اقدامات کی مخالفت کرتا تھا تو کچھ لوگ مجھے طالبان خان کہنے لگے اور کہا جاتا تھا کہ یہ  طالبان کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ  یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین وقت تھا۔ ہمیں دوست اور دشمن میں فرق نظر نہیں آرہا تھا۔ کہیں کسی نے یہ بات سنی ہو کہ آپ کا اتحادی  ہی آپ پر بمباری کر رہا ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ لندن میں 30 سالوں سے ہمارا ایک دہشتگرد بیٹھا ہوا ہے، کیا برطانیہ ہمیں ڈرون حملے کی اجازت دے گا؟، اگر وہ اجازت نہیں دے رہے تو ہم نے کیوں اجازت دی تھی، کیا ہم آدھے انسان ہیں، کیا ہماری جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ حکومت نے ان حملوں کے بارے میں اپنے عوام سے جھوٹ بولا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سینٹ میں کھلی سماعت کے دوران  ایڈمرل مولن سے پوچھا گیا کہ جب پاکستان ڈرون حملوں کی مذمت کر رہا ہے تو آپ ڈرون حملے کیوں کر رہے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی حکومت کی اجازت سے یہ حملے کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اپنے لوگوں سے جھوٹ کیوں بول رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں    دنیا نے نہیں بلکہ ہم نےخود  اپنی تذلیل کی۔ دنیا میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کر رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب اسامہ بن لادن پر حملہ ہوا تو   سمندر پار پاکستانی چھپتے پھر رہے تھے ،ان پاکستانیوں نے مجھے بتایا کہ وہ لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے، کیا امریکہ کو ہم پر اتنا بھی اعتماد نہیں تھا کہ وہ ہمیں ٹارگٹ دیتا اور ہم خود کارروائی کرتے۔ ہم دوست تھے یا دشمن، ہماری ساری عزت نفس ختم ہوگئی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں یاد ہے کہ اس کے بعد روشن خیال اعتدال پسندی کا تصور لایا گیا، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا چیز ہے۔ لوگوں کو بھی معلوم نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے لیکن ہم نے جو دیکھا وہ یہ تھا کہ ساروں نے سوٹ پہن کر انگریزی بولنا شروع کردی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان امریکہ کو ہوائی اڈے دے گا تو میرا دل کر رہا تھا کہ میں ان سے یہ سوال پوچھوں کہ پاکستان نے 70 ہزار انسانی جانوں کی قربانی دی، اربوں ڈالر اپنی معیشت کا نقصان اٹھایا، امریکہ نے ہماری کارکردگی کو سراہنے کی بجائے ہمیں برا بھلا اور افغانستان میں ہم پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی خوف کی وجہ سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ افغانستان میں ہمارے لئے مشکل وقت آرہا ہے، افغانستان میں امریکہ کا اور ہمارا مفاد ایک ہے وہ اب اس نتیجے پر آئے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اگر پہلے اس نکتہ پر آجاتے تو نقصان کم ہوتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانیوں کو بخوبی جانتے ہیں اور ان کی تاریخ سے آگاہ ہیں کہ انہوں نے کبھی بیرونی مداخلت برداشت نہیں کی۔ اگر ماضی میں ہم فعال اور خوددار حکومت کی طرح کھڑے ہوکر یہ کہہ دیتے کہ یہ کام غلط ہے تو ہم انہیں بچا لیتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب جبکہ امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں تو وہ پاکستان کو یہ کہتے ہیں کہ وہ افغانیوں کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستانیوں کے پاس سوائے چند افغان خاندانوں کے علاوہ ایسی کیا طاقت ہے کہ وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ افغان صدراشرف  غنی سمیت دیگر لوگوں سے ملے، افغانستان میں امن ہمارے مفاد میں ہے۔ ہمارے وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں، ریلوے لنک سمیت دیگر رابطے یہاں کے امن سے وابستہ ہیں۔ ہم تزویراتی گہرائی نہیں ، امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ امن کے شراکتدار ضرور ہو سکتے ہیں لیکن تنازعات میں شراکتدار نہیں بن سکتے۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں 20 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ورثے میں ملا تھا اب یہ گیارہ ماہ سے سرپلس میں ہے۔ اگر اوورسیز پاکستانی ہماری مدد نہ کرتے تو یہ ممکن نہ ہوتا۔ یہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کا ملک ہے اور اپنے ملک سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ کینیڈا میں حال ہی میں ایک پاکستانی مسلمان خاندان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سب کے سامنے ہے۔ ایک نوجوان کاشف کا بیان دیکھ رہا تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا۔ جس پر چاقو سے حملہ کیا گیا، وہ اپنے خاندان کے لئے پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ ہم اپنے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے یہاں نوکریاں نہیں دے سکے تاہم ان پر مشکلات پڑیں گی تو وہ پاکستان میں آئیں گے۔ پاکستان اب درست سمت کی طرف رواں دواں ہے، وہ یہاں آکر اپنا کاروبار کریں، سرمایہ کاری کریں ان کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیز بنکوں میں اپنے پیسے جمع کروائیں، پاکستان کو روپے کی قدر میں اضافہ اور تجارتی خسارے کی وجہ سے آنے والے دبائو سے قلیل وقت میں اوورسیز پاکستانی ہی نکال سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس وقت بڑی تکلیف ہوتی ہے جب ملک کے سربراہ کے طور پر کسی دوسرے ملک میں جاکر قرض لینا پڑتا ہے۔ اس سے لیڈر کو سبکی تو ہوتی ہے اس سے قوم بھی تنزلی کا شکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں قوم سے کہتا ہوں کہ وہ کھلے دل سے جب تک ٹیکس نہیں دیتے وہ عظیم قوم نہیں بن سکتے۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں 22 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اس سے کیسے بہتری آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی 500 ارب روپے سے زائد کے منصوبے میرے سامنے لے کر آگئے۔ اگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو یہ منصوبے کیسے بنا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم ہائوس کے اخراجات 108 کروڑ روپے کم کئے۔ پاک فوج نے گزشتہ دو سال سے اپنا بجٹ منجمد کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خوددار قوم بننا ہے تو ہمیں ٹیکس دینا پڑے گا۔ جیسے پاکستانی قوم زکوٰة اور خیرات دیتی ہے اسی طرح کھلے دل سے ٹیکس بھی دے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری شخصیات نے خود مجھے بتایا کہ انہوں نے موجودہ دور میں بہت پیسہ بنایا، وہ دیانتداری سے ٹیکس دیں، ہم ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے۔ وہاں پر خودکار نظام لا رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں سبز پاسپورٹ کی عزت ہو۔ اس کے لئے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمیں بھی ٹیکس دینا ہوگا۔ ہم نے مالی سال 2021-22ء کے لئے محصولات کا ہدف 5800 ارب روپے مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی کوئی دانستہ ٹیکس نہیں دے گا تو اسے جیل جانا پڑے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ  پہلے بھی جاری تھا مگر جب سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت آئی ہے کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیری مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں نے جو قربانیاں دی ہیں میں پوری پارلیمان کی جانب سے انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ جس طرح 80 لاکھ کشمیریوں پر 8 لاکھ بھارتی فوج تعینات کی گئی، لوگوں کو ڈرایا دھمکایا گیا،  لیکن اس کے باوجود کشمیری بھارتی ظلم و جبر کے سامنے کھڑے ہیں۔ سارا پاکستان کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بھارت پانچ اگست کے یک طرفہ اقدامات واپس نہیں لیتا بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔