اسلام آباد،25جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں لازمی اخراجات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اراکین نے کہا ہے کہ لازمی اخراجات قومی آمدنی کا 52 فیصد ہیں اس میں کمی لانے کی ضرورت ہے، نیشنل کمیشن فار دی سٹیٹ آف ویمن کو فعال کیا جائے جبکہ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ اڑھائی سال پہلے کمیشن کی چیئرپرسن کے لئے نام اپوزیشن لیڈر کے پاس گئے تھے تاہم ابھی موصول ہوئے ہیں۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں لازمی اخراجات پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رکن شائستہ پرویز ملک ، پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر پٹیل اور قیصر شیخ نے کہا کہ قومی آمدنی پر 60 فیصد سے زائد قرضہ نہیں لیا جاسکتا۔ فیٹف کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ دفاعی بجٹ 10 ارب سے کم ہو کر 9 ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ قومی آمدنی کا 52 فیصد لازمی اخراجات ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی کی شگفتہ جمانی نے کہا کہ 11 سال گزرنے کے باوجود کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کئے جانے کے خلاف تحفظ کے لئے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے لئے بجٹ پر نظرثانی نہیں کی گئی۔ کرکٹ میں ہراسانی کی وجہ سے خواتین نہیں آرہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے بل میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل کمیشن فار دی سٹیٹس آف ویمن کو فعال بنایا جائے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ ڈھائی سال سے کمیشن کے چیئرپرسن کے لئے نام اپوزیشن لیڈر کے پاس تھے، چند روز قبل ہی نام آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کو کٹوتی پر بحث کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا کہ بجٹ غیر سنجیدگی سے بنایا گیا۔ اپوزیشن نے جن تضادات کی نشاندہی کی تھی شوکت ترین نے وہ واپس لئے ہیں جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ لازمی اخراجات میں 2.7 ٹریلین قرضوں کی واپسی کے لئے رکھے گئے ہیں۔ قرضہ کمیشن کی رپورٹ ابھی تک نہیں آسکی ہے۔ موجودہ حکومت 13.5 ٹریلین کا قرضہ لے چکی ہے۔ قومی اسمبلی کے لئے دو ارب کے لازمی اخراجات ہیں حالانکہ 50 سے زائد آرڈیننس جاری کئے گئے۔ 700 ارب کے ٹیکس آرڈیننسز کے ذریعے لگائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے بھاری رقوم رکھی گئی ہیں۔ قوم فوری اور سستا انصاف چاہتی ہے۔ 21 لاکھ 60 ہزار 655 مقدمات زیر التواء ہیں۔ توقع ہے کہ اس سے انصاف کی فراہمی کا عمل تیز ہوگا۔ ہمیں عدالتوں کو ڈیجیٹلائز کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لئے اخراجات زیادہ رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے ایوان صدر کے بجٹ میں کمی کا مطالبہ کیا۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن نے کہا کہ فارن مشن میں 40 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ مشن کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ قرضوں کے استعمال کے حوالے سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ مفتی عبدالشکور نے قانون و انصاف اور قومی اسمبلی کے لئے اخراجات میں کمی کا مطالبہ کیا۔ انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ غیر ملکی قرضہ کی واپسی کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ایوان صدر کے لئے اخراجات کم کئے جائیں۔
خورشید احمد جونیجو نے کہا کہ فارن مشنز کے لئے لازمی اخرزاجات میں جو فنڈز دکھائے گئے ہیں وہ بجٹ کی کتاب میں نہیں ہیں۔ فارن مشنز میں پاکستانی شہریوں کے لئے سہولیات کی کمی ہوئی ہے،عملہ کی تعداد بھی کم ہے۔
سید محمود شاہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اخراجات کے لئے اضافی فنڈز کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ سپیکر نے گزشتہ سال بچت کرکے خزانہ کو واپس کئے تھے۔ غیر ملکی قرضوں میں بلوچستان کو بھی حصہ دیا جائے۔ رائو محمد اجمل خان نے کہا کہ لازمی اخراجات میں زراعت کے لئے فنڈز رکھے جانے چاہئیں۔ آبادی کی شرح میں 24 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
محسن داوڑ نے کہا کہ عدلیہ کا احترام ہے کیونکہ یہ لوگوں کی آخری امید ہوتی ہے، جو فنڈز رکھے گئے ہیں اس پر اعتراض نہیں تاہم خدمات اور انصاف کی فراہمی بھی ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ لا آفیسرز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لا افسران کی تقرری پبل سروس کمیشن کے تحت ہونی چاہیے۔
نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ٹریکٹر اور فرٹیلائزر پر ٹیکس ختم کئے جائیں۔ غلام مصطفی محمود نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح سے قرضوں کا حجم 87 فیصد سے بڑھا ہے۔ قرضوں کو روکنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ حکومت اگر بنکوں سے قرضے لے گی تو پھر عوام اور کاروبار کے لئے قرضوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سے نجی شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروتھ ریٹ کو بامعنی اور بامقصد بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ فارن مشنز کے لئے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ قانون و انصاف کے لئے اضافی اخراجات نہیں دینے چاہئیں۔ قادر خان مندوخیل نے کہا کہ آئی بی کے لئے فنڈز عدلیہ کو دیئے جائیں، کراچی میں دہشتگردی کے مقدمات کے لئے صرف 12 عدالتیں ہیں جن میں اضافہ ضروری ہے۔