قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2021-22ءکے وفاقی بجٹ پر بحث جمعہ کو بھی جاری رہی

23

اسلام آباد۔18جون  (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2021-22ءکے وفاقی بجٹ پر بحث جمعہ کو بھی جاری رہی، اس دوران حکومتی اراکین نے کہا کہ بجٹ متوازن ، پسماندہ علاقوں کے لئے کثیر فنڈز مختص کرنے پر ترقیاتی اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہونے اور سرکاری ملازمین کو معقول ریلیف دیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن نے بجٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ضم ہونے والے فاٹا کے اضلاع اور بلوچستان کے لئے فنڈز میں مزید اضافہ کیا جائے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے   وفاقی بجٹ 2021-22ءکو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجراءایک آئینی تقاضا ہے، جب تک نئے این ایف سی کا اعلان نہیں ہوتا صوبوں میں بے چینی بڑھے گی، سندھ اور بلوچستان سمیت جہاں جہاں سے گیس نکلتی ہے وہاں کے عوام کو گیس اگر فراہم نہیں کی جاتی تو یہ آئین اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہوگا، زرعی شعبہ کے لئے 12 ارب کی بجائے زیادہ رقم مختص کی جائے اور کھاد پر کاشتکاروں کو سبسڈی دی جائے ، جب تک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا کاغذی اعداد و شمار کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اگر معاشی ترقی کے دعوے درست ہیں تو حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام سے نکل جانا ہوگا، افغانستان کی صورتحال پر ایوان کو جامع بریفنگ دی جائے۔ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا  کہ حکومت ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل پیرا ہے، اصلاحات کے تحت خام مال پر 100 ارب روپے تک کی رعایتیں دی گئی ہیں، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی بنیاد پر استوار کیا گیا۔ سمگلنگ کا خاتمہ کیا گیا، سماجی تحفظ کے دائرہ کار میں توسیع کی گئی، صحت انصاف کارڈ اب پنجاب میں بھی دیا جارہا ہے، حکومت برآمدات پر مبنی بڑھوتری پر عمل پیرا ہے، ہماری صنعتیں ترقی کر رہی ہیں، معاشیات کا نابالغ لیکچر ایک ایسے شخص نے پڑھایا ہے جنہوں نے پوری زندگی میں کوئی کاروبار نہیں کیا، انگریزی بولنے سے کرپشن کے داغ نہیں دھلیں گے، موجودہ حکومت 22 سال کی جدوجہد کے بعد آئی ہے، ہماری شہرت دس فیصد اور بیس فیصد کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی پر ہے۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شرح خواندگی میں کمی اور پنجاب میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا، ایوان میں پیش آنے والے واقعات قابل افسوس ہیں، ڈپٹی سپیکر کی جانب سے عجلت میں کی جانے والی قانون سازی پر احتجاجاً ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جو سپیکر کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر ہم نے واپس لے لی۔ جی ڈی اے کے رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے کہا  کہ وفاقی حکومت صوبوں میں زرعی تحقیق کے لئے ادارے قائم کرے، شکارپور میں ڈاکوئوں کی سرپرستی کرنے والوں کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، زراعت کے لئے مختص بجٹ میں اضافہ کیا جائے، کھاد پر سبسڈی دی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی عائشہ غوث پاشا نے کہا  کہ نئے مالی سال میں 700 ارب روپے کا شارٹ فال ہو سکتا ہے، چینی پر ٹیکس لگایا گیا لیکن سٹاک ایکسچینج کے بروکرز کو کیپٹل گین ٹیکس میں چھوٹ دی گئی،  آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے سے روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد یعقوب شیخ نے کہا  کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ڈی آئی خان، ڈی جی خان اور بلکسر میانوالی روڈ سے ان علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، پاکستان کی موجودہ حکومت نے سفارتی تنہائی سے ملک کو نکالا، افغانستان میں قیام امن اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لئے اقدامات اٹھائے گئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی رکن ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ 70 سالوں سے بلوچستان کو اس کے وسائل نہیں ملے۔ 18ویں ترمیم کے بعد کچھ بہتری آئی ہے تاہم یہ حصہ بھی کم ہے اس پر ایک بار پھر نظرثانی کی جائے۔ بلوچستان بڑا صوبہ ہے اس کے لئے وزیراعظم کہتے ہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ریاست مدینہ میں سب سے مساوی اور یکساں سلوک ہوتا تھا۔ پارلیمانی طریقے سے حقوق حاصل کرنے کی ہماری کوششوں کو بھی پذیرائی نہیں حاصل ہوئی۔ حکومت رکن سردار طالب حسین نکئی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ اخراجات اور آمدن کا تخمینہ ہوتا ہے۔ حکومت کی پالیسی کی عکاسی بجٹ میں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئی تھیں جو اب طعنہ زنی ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ہمیں مشرف کے دور میں چھٹکارا ملا تھا مگرگزشتہ  دونوں حکومتوں نے پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف جانے پر مجبور کیا۔ دونوں پارٹیوں کی حکومتوں نے ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا حسابات جاریہ کا 20 ارب ڈالر کا خسارہ، تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو صنعت میں ترقی دینا وزیراعظم اور حکومت کا وژن ہے۔ زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اکثریتی ارکان کا پیشہ زراعت  ہے، زراعت کو صنعت کا درجہ دینا چاہیے۔ دو بمپر فصلیں کافی نہیں ہیں ہمیں تمام زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اس کے لئے زرعی مداخل اور ٹیوب ویلز پر سبسڈی بڑھانا ہوگی۔ کھادوں، کیڑے مار ادویات، واٹر چارجز میں کمی سے ملک کی زراعت ترقی کرے گی اور ہمارا کسان خوشحال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ، کسان کارڈ ، احساس پروگرام اچھے اقدامات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن نواب یوسف تالپور نے کہا کہ سندھ محصولات کا 70 فیصد دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کی رکن غزالہ سیفی نے بجٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے ایف بی آر کو سہولت کار کا کردار دیا گیا ہے۔ انہوں نے احساس پروگرام کے تحت کئے جانے والے اقدامات کو خاص طور پر سراہا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری حامد رضا نے کہا کہ بدقسمتی سے قوم کے تین دن ضائع کئے گئے۔ ایوان کا تقدس پامال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف اعداد و شمار سے حالات نہیں بدلیں گے اس کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، بیروزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔  پی ٹی آئی کے گل ظفر خان نے بحث میں حصہ لیتے کہا کہ وفاقی بجٹ 2021-22ءتاریخی بجٹ ہے۔ آئندہ بجٹ اس سے بھی اچھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈرز نے فاٹا کے حوالے سے اعداد و شمار درست نہیں بتائے۔ سابقہ قبائلی علاقوں میں آٹھ ہسپتال، سکول اور ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف میرے حلقہ میں 34 سے 36 ارب روپے کا کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 1100 آپریشن ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم عمران خان کے وژن کے ساتھ ہے۔ ہم نے قربانیاں دیں اپنے سینوں پہ گولیاں کھائیں مگر اپنے وطن سے وفاداری کا حق ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کا ہمارے ساتھ رویہ درست نہیں ہوتا ان کی ہر بات سے لسانیت ٹپکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلین ٹری سونامی پر ہم اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، اس بجٹ میں سے ہمیں گیس فراہم کردی جائے ہزاروں درخت کٹنے سے بچ جائیں گے۔