ترقی یافتہ ممالک موحولیات فنانس کے 100 ارب ڈالرسالانہ کی فراہمی کا وعدہ پورا کریں،وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم برائے پائیدار ترقی سے کلیدی خطاب

18

اسلام آباد۔13جولائی  (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے  کہا کہ گلاسگو میں سی او پی ۔26  کی کامیابی سمیت ماحولیاتی فنانس کے 100  ارب ڈالر  سالانہ کی فراہمی کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کمٹمنٹ کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ماحولیاتی فنانس کی مجموعی کمٹمنٹ اب ایک ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ او ڈی اے سمیت ترقیاتی تعاون کیلئے پیش کردہ رقم ماحولیاتی فنانس کمٹمنٹ کے سلسلے میں دوبار نہیں گنا جا سکتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم برائے پائیدار  ترقی سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی فنانسنگ کیلئے کم ازکم 50 فیصد رقم موافقت کے لئے  مختص کر دینی چاہئے جس سے ترقی پذیر ممالک مشترکہ مگر مختلف  نوعیت  کی ذمہ داریوں کے اصولوں کے ساتھ اپنی ماحولیاتی کمٹمنٹ پر عملدرآمد کر سکیں گے۔ پاکستان کے شاندار منصوبے جن میں ری چارچ انیشیٹیو اور 10 ارب ٹری سونامی پراجیکٹ شامل ہیں ،  اس قسم کی معاونت سے بہت زیادہ  استفادہ  کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوئم، قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی حکمت  ہائے عملی میں ان شعبوں کو ہدف بنایا جانا چاہئیں جن سے ترقی پذیر ممالک تینوں چیلنجوں سے نمٹ سکیں جن میں کووڈ بحالی، انسانی ترقی، سماجی تحفظ، متبادل توانائی، پائیدار زراعت، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری جو ایس ڈی جیز کے 92  فیصد پر اثر رکھتی ہے ترقیاتی حکمت ہائے عملی کا مرکزی حصہ ہونا چاہئے، اقوام متحدہ اپنی منفرد اجتماعی قوت کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری بروئے کار لانے کیلئے کثیرالجہتی سٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ کا آغاز کریں جو سالانہ پائیدار انفراسٹرکچر کیلئے درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ڈی جیز انویسٹمنٹ فیئر سمیت اقوام متحدہ کا ڈویلپمنٹ سسٹم ترقی پذیر ممالک کو ایسے موزوں منصوبے  تجویز  کرنے کیلئے  معاون ہو سکتا ہے جس سے سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چہارم، بین الاقوامی مالیاتی اور تجارتی آرکیٹیکچر کے ڈھانچہ جاتی اور منظم نقائص کو جامع اور فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تجارتی نظام تمام ترقی پذیر ممالک کو عالمی منڈیوں تک مساویانہ اور ترجیح رسائی فراہم کرے۔