اسلام آباد،24 جولائی (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے اسرائیلی سافٹ ویئر کے ذریعے دوسرے ممالک کی جاسوسی عالمی قوانین کی کھلی خلاف وزری ہے، یہ سکینڈل پاناما لیکس سے بھی بڑا ہے، بھارت نے اسرائیلی سپائی وئیر پیگاسس کے ذریعے ہائیبرڈ جاسوسی کی، مودی نے اس سافٹ ویئر کو بھارت کے اندر اپنے مخالفین کی جاسوسی کے لئے بھی استعمال کیا، وزیراعظم عمران خان اور بعض عسکری حکام کے فون سے ڈیٹا لینے کی بھی کوشش کی، پیگاسس کے ذریعے صرف پاکستان ہی کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ 10 دیگر ممالک کے نام بھی آئے ہیں، بھارت نے سائبر جاسوسی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی پر حملہ کیا ہے،پاکستان نے فون ہیکنگ کی مکمل تفصیلی انویسٹی گیشن کا فیصلہ کیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے، اس کی اہمیت پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صحافتی تنظیم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر اس معاملے کا انکشاف کیا، یہ پانامہ لیک سے بھی بڑا معاملہ ہے، پانامہ لیکس میں صرف افراد کی کرپشن کی بات تھی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ پیرس میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارے فارگیٹن اسٹوریز نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر 10 جولائی 2021کو ایک رپورٹ جاری کی، یہ رپورٹ 17 سے زائد خبر رساں اداروں اور 80 سے زائد صحافیوں کی مشترکہ کاوش تھی۔ اس رپورٹ میں کچھ ممالک کی شناخت ہوئی جنہوں نے پیگاسس سپائی ویئر کا استعمال کیا۔ اسے زیرو کلک اٹیک کہا جاتا ہے جو اسرائیل کی ایک کمپنی این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے۔ یہ کمپنی سپائی ویئر تیار کرتی ہے اور 2016ءسے یہ سپائی ویئر مختلف ممالک کو فروخت کر رہی ہے۔ یہ ملٹری گریڈ سپائی ویئر ہے جو عسکری مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اپنے قانون کے تحت یہ اسرائیلی حکومت کی مرضی اور اجازت کے بعد ہی کسی حکومت کو فروخت کیا جا سکتا ہے، کوئی انفرادی طور پر یہ سافٹ ویئر نہیں خرید سکتا۔
مشیر برائے احتساب و داخلہ نے بتایا کہ این ایس او گروپ نے 40 سے زائد ممالک کو 60 سے زائد سپائی ویئر سافٹ ویئر فروخت کئے۔ فورگیٹن اسٹوریز پراجیکٹ کے پاس 10 ممالک کا ڈیٹا آیا جنہیں یہ سپائی ویئر سافٹ فروخت کیا گیا جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، بھارت نے یہ سپائی ویئر حاصل کر کے اسے نہ صرف اپنے ملک کے صحافیوں، کاروباری شخصیات اور ججوں کے خلاف استعمال کیا بلکہ اس نے اس سافٹ ویئر کا استعمال پاکستان میں وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری حکام کے فون پر اٹیک کے لئے بھی استعمال کیا اور ڈیٹا لینے کی کوشش کی۔ اسے گارڈین نے بھی رپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیگاسس سپائی ویئر کو زیرو کلک کہا جاتا ہے جو فون کو ایک میسیج کے ذریعے متاثر کرتا ہے، فون پر ایک پیغام موصول ہوتا ہے جسے کھولتے ہی فون مکمل طور پر ہیک ہو جاتا ہے، اس سے نہ صرف ڈیٹا بلکہ رابطہ نمبرز سمیت تمام ڈیٹا ہیک کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ این ایس او کا سافٹ ویئر جب کسی ملک کو فروخت کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جاتا ہے کہ یہ صرف عسکری مقاصد کیلئے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ معاہدے کی ایک شرط ہے لیکن جب سافٹ ویئر فروخت ہو جاتا ہے تو اس سافٹ ویئر پر ان کا کنٹرول نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ سافٹ ویئر ایک غیر ذمہ دار حکومت اور ملک بھارت کو فروخت کیا گیا تو اس نے نہ صرف اسے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان سمیت 10 دیگر ممالک کو بھی ٹارگٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک مرتبہ اطلاع ملی کہ سینئر ملٹری آفیشلز کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، ان کے فون ہیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے بعد وزیراعظم کے فون کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ مشیر نے کہا کہ اس کی کڑی ای یو ڈس انفو لیب سے ملتی ہے۔ کچھ عرصے قبل برسلز میں قائم ایک ریسرچ گروپ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 750 فیک میڈیا آئوٹ لیٹس سے انفارمیشن جنریٹ کی جاتی تھی، وہ ساری فیک انفارمیشن ہوتی تھی، اس کو بھارت کی نیوز ایجنسی اے این آئی کے ذریعے پھیلایا جاتا، اس کے ذریعے عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف لابنگ کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے سائبر اٹیک سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی کی،یہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے، سائبر اٹیک میں بنیادی طور پر ملٹری گریڈ سافٹ ویئر کو استعمال کیا گیا، جو ایک حملے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی سطح پر مشاورت کی، یہ ایک سنگین معاملہ ہے، فرانس نے بھی اس ضمن میں قدم اٹھایا ہے اور اس نے اندرونی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم بھی پاکستان میں سپائی ویئر کی ہیکنگ اور جن آفیشلز کو ٹارگٹ کیا گیا، اس کا پتہ لگانے کے لئے تحقیقات شروع کر رہے ہیں۔ یہ انوسٹی گیشن انٹر ایجنسی کوآپریشن کے ذریعے کی جائے گی جس میں ایف آئی اے، فارن آفس اور وزارت داخلہ سمیت کابینہ ڈویژن بھی شامل ہوں گے۔اس تحقیقات کے بعد اس کی فائنڈنگز عالمی سطح پر شیئر کی جائیں گی جس میں اقوام متحدہ کا فورم بھی شامل ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت کی سینئر ٹیم بھی اس پورے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، ہم نے اپنی سالمیت کا تحفظ کرنا ہے جو ہمارا قانونی حق ہے اسے استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف آپشنز زیر غور ہیں جس میں یہ معاملہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی سطح پر اٹھایا جائے گا۔
مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم اور دیگر عسکری حکام کی پرائیویسی کے رائٹس کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے، ہم عالمی فورمز پر یہ معاملہ اٹھائیں گے، پاکستان اسے اپنی سالمیت پر حملہ سمجھتا ہے اور اس پر پاکستان کارروائی کا حق رکھتا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں فونز کا بھی فرانزک ہوگا، اس کے بعد پتہ چلے گا کہ یہ اٹیک کامیاب ہوا یا نہیں۔ اس ضمن میں ہماری انوسٹی گیشن ٹیم، ریسرچ گروپ سے بھی رابطہ کرے گی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ تحقیقات کیلئے ٹیم کے بارے میں مشاورت ہو چکی ہے، رواں ہفتے ٹیم کا اعلان ہو جائے گا۔ تحقیقات میں وقت درکار ہوگا کیونکہ کچھ باہر کے لوگوں سے بھی رابطہ کرنا ہے اس میں دو سے تین ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ پاکستان دفتر خارجہ کے ذریعے مطالبہ کر چکا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی معاملہ کی تحقیقات کرائی جائیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2017ءسے نافذ العمل ہے، اس کے تحت ہی کیسز رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔