ترقی پذیر ممالک کو کورونا کے معاشی مضمرات سے نکالنے اور 2030 کے دیرپا ترقی کے اہداف کیلئے معاشی وسائل کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا آسیان علاقائی فورم کے وزارتی اجلاس سے خطاب

12

اسلام آباد۔6اگست  (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو کرونا کے معاشی مضمرات سے نکالنے اور 2030 کے دیرپا ترقی کے اہداف پر دوبارہ گامزن کرنے کیلئے معاشی وسائل کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا،پاکستان، محفوظ, خوشحال اور مستحکم ایشیا پیسیفک کیلئے آسیان ریجنل فورمز کے اقدامات کی حمایت جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے، اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،خطے میں قیام امن کیلئے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے۔وزیر خارجہ جمعہ کو آسیان علاقائی فورم کے اٹھائیسویں وزارتی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آسیان ریجنل فورم ہمیں باہمی دلچسپی کے سیاسی و سیکورٹی امور پر مشاورت اور تعمیری مذاکرات کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کیلئے تعاون کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرونا عالمی وبا کی وجہ سے دنیا صحت عامہ اور معیشت کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے،اس عالمی وبا کا ماورائے جغرافیائی حدود ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ آسیان ریجنل فورم اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی کثیر الجہتی روح کو بروئے کار لایا جائے۔ ہمیں اپنے وسائل کو مجتمع کر کے ایسی ویکسین تیار کرنی چاہیے جو ایک “گلوبل پبلک گڈ” کے طور پر سب کو دستیاب ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وبا سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے سمارٹ لاک ڈاو_¿ن کی حکمت عملی کو اختیار کیا جو انسانی جانوں کا تحفظ، معاش اور معیشت کے تحفظ جیسے تین اہم پہلوو_¿ں پر مشتمل ہے جبکہ احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت 200 ارب سے زائد رقم معاشی طور پر کمزور 15 ملین خاندانوں میں تقسیم کی گئی۔ہم نے ویکسین لگانے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے دسمبر 2021 تک 70 ملین افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ وبائی بحران سے نمٹنے اور دوبارہ بہتر تعمیر کے ہدف کے حصول کیلئے ہمیں ویکسین کی یکساں فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا ۔دہشت گردی کردی کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی ہمارے معاشروں کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے ،پاکستان،دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو اکثر اوقات سرحد پار معاونت کے باعث ہوئی۔ہماری مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانی دی جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان ایک جامع نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہے۔ہم نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں اور فیٹف کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی تشفی کیلئے جامع ریگولیٹری میکانزم وضع کیا ہے ۔پاکستان ہر طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے،ہمیں کسی ملک کو یہ اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کیلئے پوری قوم یا معاشروں پر دہشت گردی کے حوالے سے الزام تراشی کرے۔ہمیں غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اور متنازعہ علاقوں کے مکینوں پر ریاستی دہشتگردی کی مذمت کرنی چاہیے اور ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،اسے کم و بیش دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیئے،ہمیں اجتماعی طور پر دنیا بھر میں بالخصوص ہمارے اپنے خطے میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور فاشسٹ رحجانات کے احیائ_ کی مذمت کرنی چاہیے ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ لوگوں کی خوشحالی، اور سماجی ترقی کیلئے دیرینہ تنازعات کو پرامن طریقے حل کیا جائے،ہم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں میں جغرافیائی تبدیلیوں کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔یہ یکطرفہ اقدام، خطے میں تعاون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ہماری کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ہم اس حوالے سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کو ضروری سمجھتے ہیں ۔خطے میں امن و استحکام کیلئے یہی واحد راستہ ہے۔اغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں قیام امن کیلئے ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے،افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغان قیادت میں افغانوں کو قابلِ قبول جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کا حمایتی ہے۔ہمیں ان اسپائلرز پر نظر رکھنا ہو گی جو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے، کشیدگی کے خاتمے کے بعد افغانستان کی تعمیر نو اور تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرے جبکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کو امن مذاکرات کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ  جنوب مشرقی ایشیا اور علاقائی تناظر میں پاکستان باہمی تعاون کے فروغ کیلئے آسیان کی مرکزیت کی اصولی حمایت جاری رکھے گا۔پاکستان، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ متعلقہ فریقین کے ساتھ باہمی صلاح اور مشاورت کے ساتھ جنوبی بحیرہ چین میں امن و امان کو یقینی بنایا جائے،ہم اس حوالے سے چین اور آسیان کے اشتراک سے کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل کی حمایت کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان ملائشیا کے ساتھ مل کر آسیان علاقائی فورم کے چوبیسویں دفاعی اداروں /یونیورسٹیوں کے سربراہان، اجلاس کی میزبانی کرے گا۔