اسلام آباد۔23اگست (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی کے بہت سے لوگ مطلوب ہیں،انہوں نے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا ہے،انکی بیخ کنی ہماری کوشش ہے۔پاکستان افغان عوام کی بہتری چاہتا ہے۔طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغان سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے،طالبان کی جانب سے سامنے آنے والے حالیہ بیانات حوصلہ افزا ہیں۔نئی دلی پرانی سوچ(سپائیلر)ترک اور امن کی سوچ اپنا لے،بھارت کو ماضی کا منفی رویہ ترک کرنا ہوگا۔خواہش ہے کہ پنچ شیر میں حالات نہ بگڑیں یہ افغان قیادت کا امتحان ہے۔افغانستان میں امن سے بھارت سمیت پورا خطہ مستفید ہوگا۔امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں،ہمارا مقصد ایک ہے۔پاکستان نے کابل سے غیر ملکی سفارتکاروں ، عالمی تنظیموں،آئی این جی اوز اور میڈیا کارکنوں کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے،28ملکوں کے شہری ہماری سہولتوں سے مستفید ہوئے،دنیا نے پاکستان کے اس کردار کو سراہاہے۔پیر کو وزارتِ خارجہ میں سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پچھلے 48 گھنٹوں میں میری کئی وزرائے خارجہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔میری جرمنی،کوریا، چین، ہالینڈ،،ڈنمارک،ترکی،برطانیہ،روس،سویڈن کے وزرائے خارجہ سمیت سیکرٹری جنرل او آئی سی اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ بھی گفتگو ہوئی اور انہیں اغان صورتحال کے حوالے سے بریف کیا۔ (آج) منگل کو جدہ میں افغانستان کے حوالے سے او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ آج میری سعودی وزیر خارجہ سے بات ہوئی،سعودی وزیر خارجہ نے کابل سے اپنے سفارتی عملے کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے بات کی۔پاکستان اس سلسلے میں بھر پور تعاون کریگا۔اس کے علاوہ پاکستان کابل میں واپسی کے منتظر مختلف ممالک کے سفارتی عملے، بین الاقوامی اداروں کے اہلکاروں اور میڈیا نمائندگان کے انخلاء کے لیے ہرممکن معاونت فراہم کر رہا ہے،ہماری ان کاوشوں کو وسیع پیمانے پر سراہا جا رہا ہے جبکہ کابل میں ہمارا سفارت خانہ مسلسل لوگوں کی معاونت کر رہا ہے۔ہماری ایمبیسی ویزوں کا اجراء کر رہی ہے اور پاکستان آمد پر ویزہ کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ہم نے انخلاء آپریشن سیل قائم کر دیا ہے جو 16 اگست سے آپریشنل ہے،اس سیل میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے نمایندگان موجود ہیں ۔ہم نے وزارت خارجہ میں کرائسس مینجمنٹ یونٹ قائم کر دیا گیا ہے جو دن رات کام کر رہا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، کابل سے مختلف ممالک کے 3234 باشندوں کو بحفاظت نکال چکا ہے – جن میں 333 لوگ پاکستانی شہریت کے حامل تھے۔ہماری سہولتوں سے 28ملکوں کے شہری مستفید ہوئے ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ (آج)منگل کو میں تاجکستان، ازبکستان ترکمانستان اور ایران کے دورے پر روانہ ہو رہا ہوں جبکہ چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ میرا تفصیلی تبادلہ ءخیال ہو چکا ہے۔میرے دورے کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہے ،ان میں کرونا کی صورتحال، بارڈر سیکورٹی، مہاجرین کی آمد جیسے چیلنجز بھی شامل ہیں۔علاقائی روابط کے فروغ کیلئے بھی ان سے مشاورت کی جائے گی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن ایک مشترکہ زمہ داری ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ متفقہ لائحہ عمل، مشاورت کے بعد اپنایا جائے۔ہم عالمی برادری کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک زمہ دار ملک ہےتمام ملکی اور غیر ملکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائیگا۔عالمی برادری اور ہمارے خیالات مین مماثلت پائی جاتی ہے،دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغان سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف افعان سرزمین استعمال کی ہے لہذا ہمارے تحفظات میں وزن ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی کے بہت لوگ ہمیں مطلوب ہیں،انہوں نے ں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا ہے،انکی بیخ کنی ہماری کوشش ہونی چاہیئے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے سابقی حکمراں موجود نہیں،اشرف غنی متحدہ عرب امارت میں ہیں،اس وقت افغانستان میں ایک خلا ہے،ہماری خواہش ہے کہ یہ خلا جلد پر ہو اور افغانستان استحکام کی طرف آگے بڑھے۔خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس وقت افغان فریقوں کے مابین گفت و شنید جاری ہے وہ شمالی اتحاد کے رہمناوں کیساتھ بھی رابطے میں ہیں،افغانستان میں شمولیتی حکومت سازی کیلئے مذاکرات اور بات چیت ہو رہی ہے۔ہم توقع رکھتے ہیں کہ غیر یقینی کی صورتحال جلد ختم ہو جائیگی۔ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،اس سلسلے میں ہم دنیا سے بھی کردار ادا کرنے کے متقاضی ہیں ،اس میں ہمارا مشترکہ مفاد ہے۔طالبان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کی جانب سے سامنے آنے والے حالیہ بیانات حوصلہ افزا ہیں، انکے ابتدائی بیانات اور مائنڈ سیٹ دیکھے تو اس میں سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ، وہ انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ افیون کی کاشت نہیں ہونے دیں گے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ عالمی برادری افغانستان کے ساتھ اپنے روابط بحال رکھے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہاں دیرپا امن ہو۔بھارتی کردار کے حوالے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ہمیشہ کہتے رہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر امن مخالف “اسپائیلرز” موجود ہیں ،آپ کے علم میں ہے کہ اس وقت خاموشی کہاں چھائی ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ نئی دلی، پرانی سوچ کو ترک اور امن کی سوچ کو اپنا لے،عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔بھارت کو دور رس سوچنا چاہیئے۔افغانستان کے حالات اچھے ہوں تو اس سے بھارت سمیت پورا خطہ مستفید ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے میڈیا کے مطابق میں کل کابل پہنچ چکا تھا “جبکہ در حقیقت میں پاکستان میں تھا ،غلط خبروں سے بھارت کی اپنی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میری سیکرٹری آف اسٹیٹ سے تین دفعہ رابطہ ہو چکا ہے،سیکرٹری آف اسٹیٹ کو امریکی حکومت نے فوکل پرسن بنایا ہے ان کے ساتھ ہم رابطے میں جبکہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں،ہمارا مقصد ایک ہے۔پنجشیر میں صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دعاگو ہیں کہ پنجشیر میں حالات نہ بگڑیں،افعان قیادت کو ذمہ داری سے آگے بڑھنا ہو گا ،اندرونی انتشار افغانوں کے مفاد میں نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ افغان عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔