میڈیا ریگولیشن سے متعلق اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئی قانون سازی کی جا رہی ہے، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے میڈیا ورکرز کے مسائل حل ہوں گے ،وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیاں برائے اطلاعات کو بریفنگ

9

اسلام آباد۔11اگست  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق تمام موجودہ قوانین کو ختم کر کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئی قانون سازی کی جا رہی ہے، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے میڈیا ورکرز کے مسائل حل ہوں گے، اتھارٹی کے قیام کے لئے چار ممالک کی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹیز کو سٹڈی کیا گیا ہے، حکومت اتھارٹی کے مسودہ پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی ہے، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورتی عمل شروع کر دیا گیا ہے، پی ایم ڈی اے ڈویلپمنٹ، جدت، ڈیجیٹل اکانومی، تربیت اور تحقیق پر توجہ مرکوز کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی مسودہ کے اہم خدوخال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اجلاس کی صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین کی عدم موجودگی کے باعث اراکین کمیٹی کی مشاورت اور فیصلے سے رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسیٰ زئی نے کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت سات ریگولیٹری باڈیز میڈیا اداروں کو چلا رہی ہیں جن میں پیمرا، پریس کونسل آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی، سینٹرل بورڈ آف فلمز سینسرز، پریس رجسٹرار آفس، آڈٹ بیورو آف سرکولیشن اور امپلی منٹیشن ٹربیونل برائے نیوز پیپرز ایمپلائز شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کسی ریگولیٹری فریم ورک کے تحت نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات موبائل فون کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے لئے ایک سنگل ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الیکٹرانک، پرنٹ، ڈیجیٹل اور ابھرتے ہوئے میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پی ڈی ایم اے کے تحت ہونا بہت ضروری ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ریگولیشن کے موجودہ میکنزم کے تحت نصف درجن سے زائد فرسودہ قوانین موجود ہیں جو جدید دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ موجودہ نظام کے تحت عوامی شکایات کے حل میں طویل وقت درکار ہوتا ہے اور رجسٹریشن اور این او سیز کی اجازت کے لئے درخواستوں میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ فریم ورک عالمی طریقوں کے مطابق کنورجنٹ میڈیا انوائرمنٹ کو درپیش چیلنجز اور تقاضوں کو حل کرے گا تاکہ پاکستان کو ملٹی میڈیا انفارمیشن اور کانٹینٹ سروسز کے لئے ایک بڑا عالمی مرکز بنایا جا سکے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پی ایم ڈی اے ایک ایسا ادارہ ہوگا جو عوامی مفادات میں خدمات انجام دینے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پولیسنگ اور ریونیو کلیکشن پر مشتمل موجودہ نظام کے برعکس نئی اتھارٹی ڈویلپمنٹ، جدت، ڈیجیٹل اکانومی، تربیت اور تحقیق پر توجہ مرکوز کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نئی اتھارٹی کے قیام سے پیپر ورک کا بھی خاتمہ ہوگا اور کاروباری ماحول میں آسانی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق تمام موجودہ قوانین کو ختم کر کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک نئی قانون سازی کی جائے گی۔ قوانین اور طریقہ کار کو آسان بناتے ہوئے شفافیت کے عمل کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان میں 114 سیٹلائٹ ٹیلی ویژن کام کر رہے ہیں جن میں سے 31 نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے چینلز ہیں، 42 انٹرٹینمنٹ، 23 علاقائی زبانوں کے چینلز ہیں جبکہ ایجوکیشن کے سات میں سے دو چینلز کام کر رہے ہیں، اسی طرح سپورٹس کے تین میں سے ایک چینل کام کر رہا ہے۔ 42 غیر ملکی ٹی وی چینلز کو لینڈنگ رائٹس دیئے گئے تھے جن میں سے 5 خبروں اور کرنٹ افیئرز کے اور 14 کڈز کے چینل ہیں۔ چوہدری فواد حسین نے بتایا کہ ایف ایم ریڈیو کی تعداد 258 ہے جن میں سے 196 کمرشل اور 62 نان کمرشل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیبل ٹی وی آپریٹرز کی تعداد 4026 ہے، آئی پی ٹی وی 12 اور موبائل ٹی وی چینلز کی تعداد 6 ہے۔ پاکستان میں اے بی سی سے منظور شدہ پرنٹ میڈیا کی کل تعداد 1672 ہے جس میں سے 1192 ڈیلیز، 203 ویکلی، 28 پندرہ روزہ، 389 نیوز ایجنسیز اور 134 پرنٹ و پریس ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مسودہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کمیٹی ممبران کا غیر رسمی اجلاس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اتھارٹی 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں میڈیا، آرٹ، فلم، لائ، سائبر سیکورٹی وغیرہ میں تکنیکی مہارت رکھنے والے چھ ممبران نجی شعبہ سے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی اے میں پریس ڈائریکٹوریٹ، ڈیجیٹل میڈیا اور فلم ڈائریکٹوریٹ، الیکٹرانک میڈیا ڈائریکٹوریٹ، میڈیا کمپلینٹس کونسل اور میڈیا ٹربیونل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹربیونل چیئرمین سمیت 10 ممبران پر مشتمل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اس اتھارٹی کے قیام کیلئے چار ممالک کی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو سٹڈی کیا گیا ہے جن میں برطانیہ، آسٹریلیا، انڈیا اورسنگارپور شامل ہیں۔ چوہدری فواد حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت اس اتھارٹی کے مسودہ پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے اور پی ایف یو جے اور پریس کلب کے عہدیداران کے ساتھ اجلاس منعقد کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان کی جانب سے میڈیا ٹربیونلز تشکیل دینے اور جرمانوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ اجلاس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے ارکان نے وزارت اطلاعات کی جانب سے تیار کئے گئے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مسودہ کو سراہا۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وہ اور دیگر ممبران مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مسودہ کا مطالعہ کریں گے اور اس میں مزید بہتری کے لئے اپنی تجاویز پیش کریں گے۔ کمیٹی کے رکن اکرم چیمہ نے کہا کہ یہ ایک جامع مسودہ قانون ہوگا جس سے میڈیا ورکرز، سیاستدانوں اور عام عوام کو فائدہ ہوگا۔ ایم این اے صائمہ ندیم نے کہا کہ اس قسم کے ریگولیٹری قانون کی ضرورت تھی۔ واٹس ایپ اور ٹک ٹاک کے متاثرین کے لئے موجودہ ریگولیٹری قوانین میں کوئی میکنزم موجود نہیں جو اس طرح کی شکایات کو حل کر سکے۔ قبل ازیں سینیٹر مصطفی کھوکھر نے ایوان زیریں اور ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس پر اعتراض کیا اور اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹرز سید علی ظفر، مصطفی نواز کھوکھر، انور لال دین، اراکین قومی اسمبلی محمد اکرم چیمہ، آفتاب جہانگیر اور صائمہ ندیم نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب، سیکریٹری اطلاعات و نشریات شاہیرہ شاہد اور وزارت کے دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔