اسلام آباد،16اگست (اے پی پی):قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان تمام افغان گروپوں کی نمائندگی کے حامل جامع سیاسی تصفیہ کیلئے پرعزم ہے جو آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہےاوربین الاقوامی برادری اور تمام افغان فریقین کے ساتھ مل کر جامع سیاسی حل کے لئے کام کرتا رہے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس پیر کو وزیرِاعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا جو افغانستان میں رونما ہوتی ہوئی صورتحال پر غوروخوض کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس میں سینئر کابینہ اراکین اور سروسز چیفس نے شرکت کی۔ شرکاء کو افغانستان میں تازہ ترین پیش ہائے رفت اور اس کے پاکستان اور خطہ پر ممکنہ اثرات پر بریفنگ دی گئی،خطہ کی مجموعی سکیورٹی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
قومی سلامتی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ پاکستان افغانستان میں دہائیوں پر محیط جاری تنازعہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لہٰذا وہ خطہ میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ عالمی برادری پاکستان کی چار دہائیوں سے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف کرے۔
شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغانستان میں تمام افغان گروپوں کی نمائندگی کے حامل جامع سیاسی تصفیہ کیلئے پرعزم ہے جو کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اجلاس میں اس امر کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری اور تمام افغان متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر جامع سیاسی حل میں سہولت کے لئے کام کرتا رہے گا۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کاربند رہا جائے۔
کمیٹی نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اب تک تشدد کے کسی بڑے واقعہ کو رونما نہیں ہونے دیا گیا اور افغانستان میں تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ قانون کی عملداری کا احترام کیا جائے، تمام افغانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی دہشت گرد تنظیم یا گروہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پائے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ افغانستان سے انخلاء کے خواہشمند تمام پاکستانیوں، سفارتکاروں، صحافیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کو واپس لانے کے لئے تمام ممکنہ سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔ وزیرِاعظم نے اس ضمن میں کابل میں پاکستانی سفارتخانے اور ریاستی مشینری کی جاری کاوشوں کو سراہا۔
کمیٹی نے پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں تنازعہ کا کبھی بھی کوئی فوجی حل نہیں تھا، تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کا بہترین وقت وہ ہو سکتا تھا جب امریکہ اور نیٹو کی افواج بھرپور عسکری طاقت کے ساتھ افغانستان میں موجود تھیں۔ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی مزید طویل عرصہ تک موجودگی سے بھی کوئی مختلف نتائج برآمد نہ ہوتے لہٰذا بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افواج کی واپسی کے حوالہ سے گذشتہ امریکی انتظامیہ کے فیصلہ کی توثیق درحقیقت اس تنازعہ کا منطقی حل ہے۔
کمیٹی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن، سکیورٹی اور افغانستان و خطہ کی ترقی کے لئے جامع سیاسی تصفیہ کو یقینی بنانے کے حوالہ سے مل کر کام کرے۔