حیدرآباد، 15 ستمبر (اے پی پی): سندھ کے زرعی ماہرین ، مثالی کسانوں ، حکومت اور زرعی صنعت سے متعلقہ سٹیک ہولڈرز نے سندھ میں جدید زراعت ، مارکیٹنگ اور تصدیق شدہ بیج کیلئے مشترکہ تحقیق تیز کرنے کی تجویز دی ہے اور سبزیوں ، پھلوں اور اس کی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق تیار کرنے کیلئے، جدید زراعت اور سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری اور نجی شعبے کی زراعت میں سرمایہ کاری اور جدید زرعی طریقوں پرعمل درآمد سے ملک کی جی ڈی پی میں مزید 6 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ جس سے 2030 تک غربت کی شرح میں 50 فیصد کمی ممکن ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں پیاز کے بیج کی تحقیق کے لیے تعلیمی ، صنعتی اور سرکاری اداروں کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد کی گئی، سندھ زرعی یونیورسٹی میں ڈچ ٹیکنالوجی کے ذریعے پیاز کے مختلف نئی اجناس پر تحقیق کیلئے کے لیے یونیورسٹی، سندھ انٹرپرئزز ڈویلپمنٹ فنڈ اور نجی کمپنی ایچ ایس گروپ کے مابین تین طرفہ معاہدے پر کسانوں، تعلیمدانوں، ماہرین اور محققین کی بڑی تعداد شریک ہوئی، تقریب کی صدارت سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کی، جبکہ مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے انویسٹمینٹ ڈپارٹمینٹ کے معاون خصوصی سید قاسم نوید تھے۔
اس موقع پر وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری ، سندھ انٹرپرائز ڈویلپمنٹ فنڈ کے سی ای او محبوب الحق اور ایچ ایس گروپ آف کمپنیز کے سی ای او انوار احمد نے معاہدے پر دستخط کیے ، معاہدے کے مطابق ، سندھ کے موسم کے مطابق زرعی یونیورسٹی کے پلانٹ کورنٹائن ریسرچ اسٹیشن پر ڈچ ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے ٹاپ 20 پیاز کی اجناس کا بیج تیار کیا جائے گا اور بعد میں بیج کاشتکاروں کو دیا جائے گا۔ اس اجناس کے بیجوں سے 5 مہینوں میں دو مرتبہ پیداوار مل سکے گے جبکہ ان کی پیداواری صلاحیت 100 فیصد ہو گی۔ پیاز کی مقامی اقسام سے نئی اجناس سے 6 گنا زیادہ پیداوار مل سکے گی ، ان اجناس کی شیلف لائف اور سائز بہتر ہے ، جوکہ ایکسپورٹ کوالٹی کے معیار کے مطابق ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت زراعت کی ترقی کیلئے کسانوں کو آسان اقساط میں قرضے دیئے جائیں تاکہ بیج ، کھاد اور دیگر زرعی ضروریات پوری کرنے کیلئے کسانوں کو تاجروں کے سود پر قرضہ نہ اٹھانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے 20 ارب اور نجی شعبہ 80 ارب زراعت میں سرمایہ کاری کرے اور تصدیق شدہ بیج اگائے جائیں تو ملنے والی بھتر پیداوار، اس کی بائے پروڈکٹس اور اس کی ایکسپورٹ سے 2030 تک ملکی جی ڈٰی پی میں 6 فیصد کا اضافہ ممکن ہے۔ جبکہ غربت میں شرح میں 50 فیصد کمی اور 50 فیصد روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بیماری سے پاک آم ، گندم ، کپاس ، سبزیوں کے بیجوں پر تحقیقی کام ہمارے قائم ریسرچ اسٹیشن پر جاری ہے۔
صوبائی معاون سید قاسم نوید نے کہا کہ دنیا میں زرعی ترقی کے مرکز میں جامعات ہوتی ہیں ، جہاں ماہرین ، کاشتکاروں ، صنعتوں ، نئے پروجیکٹس ، جدید تحقیق اور فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے نئے رجحانات متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا زراعت کی ترقی سے سندھ اور سندھ کے لوگ ترقی کریں گے۔ہم سندھ زرعی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ اور ویلیو چین کے اصول کسانوں کے لیے ترقی کی نئی راہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہمارے خاندان کی تیسری نسل زراعت اور کسانوں کے مسائل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
سندھ انٹرپرائزز ڈولپمنٹ فنڈ کے محبوب الحق نے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی میں پلانٹ کورنٹائن ریسرچ اسٹیشن کے قیام سے پیاز کی ڈچ ٹیکنالوجی کی اجناس پر تحقیق کی جائے گی ، جس سے ایکسپورٹ معیار کی پیاز تیار ہو سکیں گے۔
لیفٹ بینک کینال ایریا واٹر بورڈ کے چیئرمین قبول محمد کھٹیان نے کہا کہ زرعی اشیاء کی درآمد ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے مہنگی ہوئی جبکہ پانی کی قلت نے زراعت کو بھی خاصا نقصان پہنچایا ہے جبکہ اس دفعہ ارسا کی جانب سے آبپاشی سے پانی کی مطلوبہ فراہمی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے طلباء کو تحقیق اور تدریس کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ مستقبل میں انہیں زراعت اور برآمدات میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آبادگار رہنما سید ندیم شاہ جاموٹ نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی نے کسانوں ، محققین ، صنعت اور حکومت میں موجود خلا کو ختم کر دیا ہے، چیمبر آف ایگریکلچر کے رہنما نبی بخش سٹھیو نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات شروع ہو چکی ہیں، اگلے سال ستمبر کی جگہ نومبر میں بارشیں ہوں گی ، ایچ ایس گروپ آف کمپنیز کے سی ای او انوار حسین نے کہا کہ بھارت دنیا کے سب سے بڑا پیاز کا برآمد کنندگان میں سے ایک ہے ، جب بھی بھارت میں کسی آفت یا ماحول کی وجہ سے برآمد متاثر ہوتی ہے تو عالمی مارکیٹ کی نظر پاکستان پر ہوتی ہے ، لہذا زرعی اجناس پر تحقیق ضروری ہے ، اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرس کی مشترکہ تعاون کے ذریعے برآمدی معیار کے اجناس پر تحقیق ضروری ہے۔
اس موقع پر محمد اسماعیل ،ڈاکٹر ظہور سومرو نے بھی خطاب کیا۔