سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا چئیرمین سینیٹر ہلال الرحمان کی زیرصدارت اجلاس ،ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات طلب

13

اسلام آباد،14ستمبر  (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس چئیرمین کمیٹی سینیٹر ہلال الرحمان کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈویژن نے ضم شدہ علاقوں کی خصوصی ترقی کیلئےاین ایف سی کا 3 فیصد مختص کردہ فنڈ کے حوالے سےکمیٹی کو بریفنگ دی۔ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2020-2021 میں ضم شدہ علاقوں کی ترقی کیلئے مجموعی طور پر 121.1 بلین روپےجاری کئے گئے جبکہ سال 2021-2022 کیلئے 129.7 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں 30.6 بلین روپے جاری ہو چکے ہیں۔کمیٹی اراکین نے فنانس حکام سے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

ایڈیشنل سیکٹری فنانس ڈویژن نے بتایا کہ این ایف سی کی سب کمیٹی بن چکی ہے اور ان کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ ترقیاتی پلان لے کر آئیں۔فنانس ڈویژن کے حکام کی طرف سے مختص کردہ 3 فیصد بجٹ کو “ہوامیں ہے” کہنے پر سینیٹر بہرہ مند تنگی نے سخت اعتراض اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ اگر سب “ہوا میں ہے”تو اس پر بات کر کے ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہیں۔چئیرمین کمیٹی نے متعلقہ حکام سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے سبز باغ دکھا کرسابقہ فاٹا کے لوگوں کو چھوڑ دیا ہے۔فنانس ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ یہ این ایف سی کا کام ہے کہ کس کو کب کیا دینا ہے۔کمیٹی اراکین نے کہا کہ اگلی میٹنگ میں کمیٹی کو تفصیلات مہیا کریں کہ کس منصوبے پر کتنا پیسہ خرچ ہوا ہے۔

سینیٹر دوست محمد خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ سارے اعدادوشمار بڑھا چڑھا کر پیش کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں اخراجات کی مد میں لوگوں کو 4 لاکھ روپے ملنے تھے لیکن کسی کو بھی ابھی تک کچھ نہیں ملا۔چئیرمین کمیٹی نے تمام اراکین کمیٹی کی مشاورت سے ضم شدہ علاقوں کیلئے الگ اکاونٹ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اگلی میٹنگ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک حکام کو طلب کر لیا۔انہوں نے کہا کہ ون لائنر بجٹ میں مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ضم شدہ علاقوں کیلئے”ایکسلیریٹڈ ایمپلیمینٹیشن پروگرام “(اے آئی پی) اور “اے ڈی پی” کے تحت جاری کردہ فنڈز پر بھی کمیٹی کو مفصل بریفنگ دی گئی۔متعلقہ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2018-2019 سے سال 2021-2022 تک اے آئی پی کے تحت مجموعی طور پر 61.35 بلین روپے جبکہ اے ڈی پی کے تحت 56.47 بلین روپے جاری کئے گئے۔مجموعی طور پر 117.82 بلین روپے جاری کئے گئے ہیں جس میں 117.08 بلین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔حکام نے بتایا کہ اے آئی پی کے تحت 144 بلین روپے مختص کئے گئے جس میں 64 بلین روپے جاری کئے گئے۔

سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ وزیرستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا وہاں کی حالت موہن جو دڑو اورہڑپہ سے بھی ابتر ہے۔چئیرمین کمیٹی نے متعلقہ حکام سے اگلی میٹنگ میں اے آئی پی اور اے ڈی پی کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات اور ٹینڈرز طلب کرلئے ۔کمیٹی اراکین نے ضم شدہ علاقوں میں سڑکوں اور پانی کے مسائل کے حوالے سے اعتراضات بھی متعلقہ حکام کے سامنے رکھے۔اے آئی پی حکام نے بتایا کہ ضم شدہ علاقوں میں غیرفعال عمارتوں کو بھی زیر استعمال لیا جا رہا ہے۔بی ایچ یو میں برتیوں کا عمل جاری ہے۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ باجوڑ میں کوئی اسکول نہیں بنا ہے کچھ اسکولوں میں 250 طلبا کیلئے ایک استاد ہے جبکہ 1500 طلبا کیلئے 3 کمرے ہیں۔فنانس ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ ضم شدہ علاقوں میں 7 پرائمری اسکول بنائے جائیں گے۔ چئیرمین کمیٹی نے سینیٹر بہرہ مند تنگی کی سربراہی میں اے آئی پی کے تحت مختلف اسکیمز پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔ سینیٹر دوست محمد خان اور سینیٹر ہدایت اللہ بھی ذیلی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ٹی ڈی پیز کی بحالی کیلئے جاری کردہ فنڈز، لوگوں کی جائیدادوں اور کاروبار کے نقصانات کا ازالہ کرنےکیلئے ادائیگیوں کے حوالے سے بھی کمیٹی کو بریف کیا گیا۔چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی غیر موجودگی میں اس پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

چئیرمین کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں مکمل رپورٹ کے ساتھ آڈیٹر جنرل کو طلب کرلیا۔چئیرمین کمیٹی نے اے آئی پی حکام کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اگلی میٹنگ میں آڈیٹر جنرل کے سامنے کمیٹی کو بریفنگ دیں۔سابقہ لیویز اور خاصادار فورسز کو خیبرپختونخواہ پولیس میں ضم کرنے کے حوالے سے ڈی آئی جی خیبرپختونخواہ نے کمیٹی کو مفصل بریفنگ دی۔انہوں نے بتایا کہ کل 29833 میں سے 25879 کو کے پی پولیس میں ضم کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 3016 پوسٹیں خالی ہیں جبکہ 944 غیر تصدیق شدہ ہیں۔سابقہ خسادار اور لیویز کو کارڈ کے اجراء کے حوالے سے ڈی آئی جی نے بتایا کہ اب تک 13174 لوگوں کو کارڈ زجاری کئے گئے ہیں۔سینیٹر بہرہ مند تنگی کے سابقہ خسادار اور لیویز کو ترقی دینے کے حوالے سے سوال پر ڈی آئی جی کے پی نے بتایا کہ پولیس میں پروموشن کیلئے جو طریقہ کار ہےوہ ان پر بھی لاگو ہوگا۔

کمیٹی اراکین نے ڈی آئی جی کے پی کو آگاہ کیا کہ کچھ کانسٹبلز کو ڈاریکٹ ڈی پی او کے پوسٹ پر ترقی دی گئی ہے جس پر چئیرمین کمیٹی نے ڈی آٗئی جی کے پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام اضلاع کے متعلقہ حکام کو خط لکھ کر ایسے پروموشنز کے بارے میں تفصیلات طلب کرلیں جس سے ڈی آئی جی نے اتفاق کیا۔کمیٹی اراکین نے رائے دی کہ اس کام میں جو ملوث ہیں ان کو سزائیں دیں۔سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ اگر تین سال میں اب تک کارڈز کے اجرا کا عمل بھی مکمل نہیں کیا گیا تو یہ افسوس کی بات ہے۔کمیٹی اراکین نے کارڈز کے اجراء کے معاملے پر ڈی آئی جی سے سوال کیا کہ کب تک کارڈز کے اجراء کا عمل مکمل ہو جائے گا جس پر ڈی آئی جی نے کمیٹی کو یقین دہائی کرائی کہ وہ تحریری طور پر لکھ کر دے دیں گے کہ بہت جلد یہ کام مکمل ہو جائے گا۔

سینیٹر دوست محمد خان نے 1100 سابقہ لیویز اور خاصادار اہلکاروں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ اٹھایا جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ جانچ پڑتال اور تصدق کرانے کے بعد ہی تنخواہیں جاری ہوتی ہیں۔سینیٹر گوردیپ  سنگھ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کیلئے اقلیتی برادری سے لوگ بھرتی کرنے کی درخواست کی جس پر ڈی آئی جی کے پی نے کہا کہ اقلیتوں کی حفاظت کیلئے اسپیشل مائنارٹی فورس (ایس ایم ایف) بنا رہے ہیں اور یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی،سینیٹڑ شمیم آفریدی، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر دوست محمد خان، سینیٹر دنیش کمار، سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان، سینیٹر گوردیپ سنگھ اور سینیٹر انورلعل دین کے علاوہ وزارت خزانہ ،اے آئی پی اور پلاننگ ڈویژن کے حکام اور ڈی آئی جی خیبرپختونخواہ نے کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔