وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کا زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب

24

فیصل آباد۔11ستمبر  (اے پی پی):وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام نے کہا کہ وہ ملک کے مختلف زرعی تعلیم وتحقیق کے اداروں کے دورے کررہے ہیں جس کا مقصد سائنسدانوں اور زرعی ماہرین سے زرعی ترقی، غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافہ اور کاشتکاروں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے ضروری مشاورت کرنا ہے کیونکہ زراعت ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور زراعت کا زرعی تعلیم اور تحقیق کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے لہٰذا حکومت چاہتی ہے کہ وہ تعلیم، تحقیق اور توسیع کو عملی زندگی میں لاکر پیداوار میں اضافہ اور اس ضمن میں سائنس و ٹیکنالوجی کو پروموٹ کرکے دنیاکے مقابلہ میں آسکے کیونکہ جن ممالک نے سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنایا وہ دنیا پر چھاگئے۔ ہفتہ کی دوپہر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد آمد کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ان ممالک میں فوڈ سکیورٹی،مال نیوٹریشن اور پاورٹی کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں ہمیں ان مسائل کا زیادہ سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے زرعی ترقی پر کام شروع کردیا ہے اور اور امسال گندم کی 2 کروڑ9 لاکھ ٹن،گنے کی 5 کروڑ 70 لاکھ،مکئی78 لاکھ52 ہزار ٹن،آلو کی56 لاکھ 82 ہزار ٹن،دھان کی 53 لاکھ ٹن،مونگ کی 19 لاکھ25 ہزار ٹن، تل کی 90 ہزار ٹن پیداوار حاصل ہوئی ہے تاہم کپاس کی پیداوار کچھ کم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کپاس کے کاشتکار کو اس کی پوری قیمت نہیں مل رہی تھی لیکن اب حکومت کی جانب سے کپاس کی امدادی قیمت 2800 روپے سے بڑھا کر 5000 روپے فی 40 کلوگرام کرنے سے کپاس کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہونے لگاہے اور جن کاشتکاروں نے پہلے کم قیمت کے باعث کپاس کی کاشت ترک کردی تھی وہ دوبارہ کپاس کی کاشت کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کپاس جسے وائٹ گولڈ کا نام بھی دیا جا تا ہے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کپاس ہمارے ملک کی اہم ترین فصل ہی نہیں بلکہ ملکی برآمدات میں کپاس اور اس کی مصنوعات کا حصہ 60 فیصد کے قریب ہے۔انہوں نے بتایا کہ کپاس نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے خام مال مہیا کرتی ہے بلکہ ملکی پیداوار کا تقریباً70 فیصد کھانے کا تیل بھی کپاس کے بنولے سے حاصل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کا مؤقف تھا کہ کپاس کی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ کے باوجود انہیں اوپن مارکیٹ میں پھٹی کی قیمت زیادہ سے زیادہ 2500 سے 2800 روپے فی 40 کلوگرام ملتی ہے لہٰذا وہ اس قیمت میں کپاس کی کاشت نہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مذکورہ صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کپاس کی سپورٹ پرائس 2800 روپے سے بڑھا کر 5000 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کردی ہے جس کے باعث نہ صرف کاشتکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ انہوں نے دوبارہ سے کپاس کی کاشت کی جانب توجہ مرکوز کردی ہے جس سے آنیوالے سالوں میں کپاس کی شاندار پیداوار حاصل ہوسکے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے مل کر کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیلئے کام کررہے ہیں جس سے آئندہ سالوں میں اس کی بھی بہترین پیداوار حاصل ہوگی۔انہوں نے کہا کہ امسال توقع ہے کہ کپاس کی 8.5 ملین گانٹھیں حاصل ہوں گی۔سید فخر امام نے کہا کہ ہمارے ہاں سیڈ ٹیکنالوجی کا بھی بڑا مسئلہ ہے اور ہم اس پر بھی کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 11 لاکھ ٹن سیڈ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ پاکستان کا زیر کاشتہ رقبہ 22 ملین ایکڑ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگلے چھ سات ہفتوں میں گندم کی کاشت بھی شروع ہورہی ہے جس کیلئے ہمارے پاس 5 لاکھ 30 ہزار ٹن بیج موجود ہے اوراس میں ایک لاکھ 30 ہزار ٹن بیج ایسا ہے جو جڑی بوٹیوں کے خلاف بھرپور قوت مدافعت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر ایک تفصیلی منصوبہ بنارہے ہیں تاکہ غلے کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا جاسکے تاہم اس کیلئے ہمیں ہائی ویلیو کراپس کی طرف جانا ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ زراعت کی جی ڈی پی میں 60 فیصدحصہ لائیو سٹاک کا بھی ہے لہٰذا حکومت اس جانب بھی خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جس میں بریڈنگ، فیڈنگ اور جانوروں کی صحت شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں میکنزم تیار کیا جارہا ہے۔فخر امام نے کہا کہ وہ رحیم یار خان، صادق آباد، وہاڑی اور لودھراں کے ریسرچ سنٹرز کے دورے کرچکے ہیں جبکہ دیگر سنٹرز کے دورے بھی جاری ہیں جس کا مقصد وہاں کے ماہرین سے مل کر میکنزم کی تیاری ہے کہ کاشتکاروں کو کس طرح فائدہ پہنچایا جائے۔انہوں نے کہا کہ زراعت کی پروڈکشن میں چار فیکٹرز کام کرتے ہیں جن میں زمین، سیڈ،جانور اور ٹیکنالوجی شامل ہیں لہٰذا ہمیں ان سب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے 170 ارب روپے کی لاگت سے آن فارم واٹر مینجمنٹ کا منصوبہ شروع کیا ہے جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو دن پہلے ان کی چینی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے اور ان سے زراعت کی ملکی پیداوار بڑھانے پر بات کی گئی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ ہم چائنہ کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں جلد ہی دو ایم او یوز پر دستخط بھی کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چائنہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے اسلئے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان سے معاونت حاصل کرسکیں اور ان کے چوٹی کے سائنسدان یہاں آکر ہمارے ریسرچ سنٹرز میں ریسرچ کا معیار کا امپروو کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے چائنہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں جن سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔فخر امام نے کہا کہ ہمارا مسئلہ صرف زرعی پیداوار کو بڑھانا ہی نہیں بلکہ عالم اقوام کا اس سلسلہ میں مقابلہ کرنا بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ زرعی اکانومی اور زرعی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کیلئے ہمیں ویلیو ایڈیشن کی طرف جانا ہوگا جس کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے سائنسدان آگے آئیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے کامیاب جوان پروگرام شروع کیا ہے جس میں انہیں فنڈز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انٹرپرینیور سکل بھی فراہم کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح کاشتکاروں کو ڈیڑھ لاکھ روپے تک بغیر گارنٹی قرضے دیئے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت 58.5 فیصد روزگار فراہم کر رہی ہے اور اس میں بتدریج اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ویلیو ایڈیشن اندسٹری کو پروموٹ کررہی ہے جبکہ ہماری سبزی و فروٹ کی ایکسپورٹ بھی 7 ملین ڈالر سے بڑھ کر 8 ملین دالر سالانہ ہوگئی ہیں نیز ترشاوہ پھلوں کی جوایکسپورٹ پہلے ساڑھے 3 لاکھ ٹن تھی وہ بھی 4 لاکھ 62 ہزارٹن ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح آم کی برآمد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت12 ایکڑ تک اراضی کے حامل کاشتکاروں کو خصوصی ترجیح دے رہی ہے اور انہیں 4 ارب روپے سبسڈی کی کرپشن سے پاک براہ راست فراہمی کیلئے کسان کارڈز کا اجرا جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا فوکس کم آمدنی والے افراد کی آمدنی بڑھا نا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی آبادی 3 کروڑ90 لاکھ ہے اور ہمارے پاس 61 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے جس میں سے 40 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا پروگرام ہے اور اس میں سے 30 لاکھ ٹن سرکاری اور 10 لاکھ ٹن غیر سرکاری طور پر برآمد کی جا ئے گی۔فخر امام نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور انہیں غذائی مدد فراہم کی جائے گی جس کیلئے 4 سی 130 طیارے امدادی سامان لیکر روانہ بھی ہوگئے ہیں۔