حیدرآباد, اکتوبر 18 (اے پی پی) :سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ورلڈ فوڈ ڈے کی تقریبات کے دوران ماہرین اور سائنسدانوں اس خدشہ کا اظہار کیا کہ سندھ سمیت پاکستان میں پوری خوراک کی صورتحال تشویشناک ہے ، لاکھوں لوگ بھوک سے دوچار ہیں، اور بغیر کھانے کے سوجاتے ہیں حس کے لئیے ملکی تحقیقی اداروں اور نجی شعبوں کو مشترکہ جدوجہد کرنی پڑے گی۔
سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز کے زیرمیزبانی اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے تعاون سے “صحتمند کل کیلئے ، آج غذائیت سے بھرپور خوراک” کے عنوان کے تحت عالمی یوم خوراک کے موقع پر منعقدہ سیمینارسےصدارتی خطاب کرتے ہوئے وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ آج سندھ سمیت ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں اور غربت کی شرح زیادہ ہے اور اکثر لوگ بغیر کھانا کھائے سوجاتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ماضی میں ماہرین نے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بھوک اور فاقہ کشی سے دنیا تباہ ہونے کی پیشن گوئی کی تھی لیکن زرعی ماہرین نے سائنس کے ذریعےایسے نظریات کو شکست دی، انہوں نے کہا دنیا کو کھانے کے ضیاع سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑیں گے اور زراعت واحد شعبہ ہے جو غذائی تحفظ اور غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے ہاں 17 فیصد زرعی پیداوار ضائع ہوجاتی ہے اور 30 فیصد سے زائد غذا کچرے کے ڈھیروں پر پھینکی جاتی ہے جبکہ کچھہ لوگ حد سے زیادہ کھانے کھاتے ہیں اور بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
ایف ایف سی کے ڈپٹی پراجیکٹ منیجر مارکیٹنگ عبدالجلیل جروار نے کہا کہ دنیا میں مستقبل میں خوراک کے مزید مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں، ہمارے ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور قابل کاشت زمین کم ہو رہی ہے لہٰذا ہمیں نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محدود زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار اٹھانے پر تحقیق کرنی چاھئے، تاکہ ملک میں خوراک کے مسائل کو حل کیا جا سکے.
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے کہا کہ ایف اے او کی اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی نے اپنی رپورٹ میں واضع کیا ہے کہ دنیا میں 820 ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ دنیا کی 70 فیصد آبادی غریب اور وسائل سے محروم دیہی علاقوں میں رہتی ہے جو مسلسل بھوک سے پریشانی کا شکارہیں، انہوں نے کہا کہ مختلف آفات، پانی کی قلت ، خشک سالی ، زرعی زمینوں کی رھائشی آبادیوں میں تبدیلی ، موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی خوراک کی کمی کا باعث ہیں.
انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اعجاز حسین سومرو نے کہا کہ دنیا بھوک ، مناسب خوراک کی کمی ، سماجی ، معاشی اور دیگر مسائل سے دوچار ہے. انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے بڑی ہجرت غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے ہو رہی ہے اور پاکستان کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام ایک اندازے کے مطابق ہر سال اپنی خوراک کا 40 فیصد ضائع کرتا ہے جو کہ 36 ملین ٹن ہے اور پاکستان خوراک کے عدم تحفظ کے حوالے سے گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق 116 ممالک میں 92 ویں نمبر پر ہے، جس کا اسکور 24.7 ہے. ڈاکٹر تحسین فاطمہ میانو نے کہا کہ خوراک کے تحفظ کیلئے فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ خوراک کے متبادل ذرائع پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ، انہوں نے کہا کہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اس موقع پر ڈین ڈاکٹر سید غیاث الدین شاہ راشدی، ڈین ڈاکٹر جان محمد مری، پرنسپل ڈاکٹر محمد ابراہیم کیریو ، پرنسپل ڈاکٹر اللہ ودھایو گانداھی، ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، ڈاکٹر سید ضیاء الحسن شاہ اور دیگر بھی موجود تھے۔ عالمی یوم خوراک کے حوالے سے ریلی کا انعقاد کیا گیا جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز کے طلباء نے مختلف قسم کے کھانے کی اشیاء کی نمائش کا انعقاد کیا جن میں آچار ، چٹنی ، جام ، جیلی ، بیکری ، جوس ، کیک کے اسٹال شامل تھے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے اسٹال اور نمائش کا دورہ بھی کیا اور فوڈ ایٹم کی تیاری میں پرنس اسامہ اول ، سمن دیوی دوسری اور لاویت کمار نے تیسری پوزیشن حاصل کی ، جبکہ سائنسی پوسٹرکے مقابلے میں عظمیٰ ناز اول ، شائستہ دوسری اور انسیہ زھریٰ تیسری پوزیشن حاصل کی ، وائس چانسلر کی ہدایت پر انہیں میں نقد انعامات اور سرٹیفکیٹ ایواڈ کئے گئے۔