پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم اضافے سے حکومت کو دو ارب روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ، ایک ہفتہ بعد چینی 90 روپے فی کلو فروخت ہوگی، مڈل مین کا کردار کم کرنے کے لئے پرائس مجسٹریٹ کا نظام مضبوط بنانا چاہتے ہیں ، وزیر خزانہ

14

اسلام آباد۔1اکتوبر  (اے پی پی):وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت نے اوگرا کی سفارشات کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو اضافے کا اعلان کیا ہے اس سے حکومت کو دو ارب روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا، وزیراعظم کی ہدایت پر پٹرول صرف 4 روپے اور ڈیزل صرف 2 روپے فی لیٹر بڑھایا گیا ہے حالانکہ اوگرا نے پٹرول 8 روپے اور ڈیزل سوا  تین  روپے بڑھانے کی تجویز دی تھی، وزیراعظم کے حکم پر گندم کی قیمت کم کرکے 1950 کردی گئی ہے جس سے آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1100 روپے میں ملے گا، خوردنی تیل پر سیلز ٹیکس کی شرح میں 44 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے گھی کی قیمتوں میں واضح کمی ہوگی، حکومت نے ساڑھے بارہ ملین نچلے طبقے کو آٹے، چینی، دالوں اور گھی میں براہ راست سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے،   ایک ہفتہ بعد پورے ملک میں چینی 90 روپے فی کلو فروخت ہوگی، وزیراعظم کی ہدایت پر مڈل مین کا کردار کم کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے پرائس مجسٹریٹ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں، گزشتہ سال ڈیٹ ٹو جی ڈی پی میں 4 فیصد کمی آئی ہے، رواں سال اس میں مزید کمی لائیں گے، آئندہ چند دنوں میں کامیاب جواب پروگرام شروع کریں گے، فوڈ آئٹمز کی درآمد کو کم کرنے کے لئے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری لا رہے ہیں، توقع ہے کہ رواں سال 58کھرب  کا ریونیو کا  ہدف عبور کر لیں گے، پاور سیکٹر میں ٹیرف میں اضافہ کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوگا اس سے غریب آدمی پر دبائو بڑھے گا، آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں مہلت مانگی جائے گی۔ جمعہ کو پارلیمنٹ ہائوس میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کیا ہے اس ضمن میں اوگرا نے سفارش کی تھی کہ پٹرول 8 روپے اور ڈیزل سوا تین روپے فی لٹر بڑھایا جائے مگر وزیراعظم کی ہدایت پر پٹرول صرف 4 روپے فی لٹر اور ڈیزل صرف دو روپے لیٹر بڑھایا گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو دو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جنوری، فروری میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 42 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ اس وقت 80 ڈالر فی بیرل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 17 ویں نمبر پر ہیں اور اس خطہ میں ہم اب بھی سب سے کم قیمت پر پٹرولیم مصنوعات فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت میں 235 روپے، بنگلہ دیش میں 195 روپے فی لیٹر ہے جبکہ پاکستان میں 127 روپے فی لیٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے حکومت کو مالی دبائو برداشت کرنا پڑے گا۔ شوکت تری نے کہا کہ 2018ء میں پٹرولیم لیول 30 روپے تھی مگر اب یہ اڑھائی روپے تک آگئی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے عوام پر اور بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان پر ایسا حکمران حکومت کر رہا ہے جو غریب کے لئے درد رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اس وقت قیمتوں میں اضافہ کی وجہ کورونا وباء ہے۔ امریکہ میں افراط زر ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گزشتہ دس سے12سال  میں افراط زر کی بلند ترین شرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس لئے ہوا ہے کیونکہ ماضی کی کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستان فوڈ امپورٹر بن گیا ہے حالانکہ اگر ہم اپنے زرعی شعبہ کو مضبوط کرتے اور اپنی پیداوار بڑھاتے تو ہمیں اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب ہم زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس وقت ہم گندم، چینی، دالیں اور گھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے حکم پر گندم کی سرکاری قیمت خرید 2040 روپے فی من سے کم کرکے 1950 روپے کردی گئی ہے جس سے آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1100 روپے تک آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چینی 90 روپے کلو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی کسی نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے مگر ایک ہفتہ بعد پورے ملک میں چینی 90 روپے فی کلو فروخت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خوردنی تیل پر سیلز ٹیکس کی شرح میں 44 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے گھی کی قیمتوں میں واضح کمی ہوگی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ ان کے علاوہ حکومت نے ملک کے ساڑھے بارہ ملین نچلے طبقہ کو آٹے، چینی، دالوں اور گھی میں براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔ کاشتکار اور ہول سیلرز کے درمیان مڈل مین 400 سے 500 منافع کماتا ہے۔ مڈل مین کا کردار کم کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کے لئے وزیراعظم پرائس مجسٹریٹ کا نظام مضبوط بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے ہم آگے بڑھنے پر غور کر رہے ہیں۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران اپنے ٹارگٹ 185 سے 190 ارب روپے زیادہ ریونیو حاصل کیا ہے۔ معیشت کی بہتری کے ثمرات جلد عوام تک پہنچنا شروع ہوں گے۔ ہماری انڈسٹری، زراعت اور خدمات کے شعبے بہتر ہو رہے ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں کامیاب پاکستان پروگرام کا اعلان کریں گے اس حوالے سے ہماری آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے بات ہوگئی ہے۔ دیہی علاقوں میں ہر کاشتکار گھرانے کو ڈیڑھ لاکھ کا قرضہ فصلوں کے لئے اور دو لاکھ کا قرضہ ٹریکٹر اور زرعی مشینری کے لئے دیا جائے گا۔ اسی طرح شہروں میں گھرانوں کو پانچ لاکھ کا بلا سود قرضہ بھی دیا جائے گا۔ ہر گھرانے کو صحت کارڈ دیا جائے گا اور ہر گھر سے ایک فرد کو ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے گی۔ ہم لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنا کاروبار خود کریں۔ اس ضمن میں حکومت کو بہت کم پیسے اپنے پلے سے دینے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ملک کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں۔ انشاء اللہ ہم بنا کر رہیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گندم کے سٹرثیٹجک ذخائر کی ضرورت چار ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ اس وقت دو ملین میٹرک ٹن موجود ہیں۔ ہم دالوں سمیت دیگر اجناس کے سٹریٹجک ذخائر قائم کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہماری ڈیٹ ٹو جی ڈی پی شرح میں چار فیصد کمی آئی ہے۔ رواں سال اس میں اور بھی کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ریونیو اور پاور سیکٹرز کے حوالے سے سنجیدہ مذاکرات کریں گے۔ توقع ہے کہ رواں سال 58  کھرب  روپے  کا ریونیو ہدف عبور کرجائیں گے۔ پاور سیکٹر میں ہمیں چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صرف ٹیرف بڑھانا مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔ ہم فاضل بجلی کو استعمال میں لاکر بھی اس شعبہ میں بہتری لا سکتے ہیں مگر اس میں وقت لگے گا۔  آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ پاور سیکٹر کے حوالے سے ہمیں مہلت دی جائے اگر پاور سیکٹر کے ٹیرف میں اضافہ کیا تو اس سے غریب آدمی پر بوجھ پڑے گا۔