ذیلی کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا تحقیقی مکالموں کی چوری پر اظہار تشویش

28

اسلام آباد۔6دسمبر  (اے پی پی):ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی پانچ جامعات قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پنجاب لاہور اور یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ کے تحقیقی مکالموں کا جائزہ لینے اور تحقیقی مکالموں کی منظوری اور پبلشنگ کے طریقہ کار کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔  کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ذیلی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں مستقبل کیلئے لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا کہ کس طرح اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقی مکالموں کی چوری اور غلط استعمال کے تدارک کیلئے متعلقہ اداروں کی طرف سے ہر ممکن اقدام یقینی بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ تحقیقی مکالموں کے مواد کی چوری کے حوالے سے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی اداروں سے بھی شکایات وصول ہو رہی ہیں۔ذیلی کمیٹی کو ایچ ای سی حکام نے بتایا کہ جامعات کے وائس چانسلرز کے تحقیقی مکالموں کی منظوری ایچ ای سی سے ہوتی ہے اور باقیوں کی متعلقہ یونیورسٹی کرتی ہیں۔ انٹر نیشنل مکالمے کو ڈبلیو کیٹاگری میں رکھتے ہیں اور انٹرنیشنل مکالموں کی منظوری انٹرنیشنل ایجنسیاں دیتی ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 600مکالموں کی منظوری کی درخواست آئی تھی جن میں سے 3سو کو منظور کیا گیا۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے کہ اب تک کتنے مکالموں کی درخواستیں آئیں، اُن میں سے کتنے جعلی یا نقل شدہ مواد سے مرتب کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ معیار اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ذیلی کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ایجنڈے میں شامل جامعات کے وائس چانسلر کو طلب کر لیاتا کہ معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2007میں اس حوالے سے ایک پالیسی بنائی گئی تھی جس میں اب تک 3سو کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جو بھی شکایت آتی ہے 90دن میں اُس کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جس پر کنونیئر کمیٹی رانا مقبول احمد نے کہا کہ آسٹریلیا میں ایک پاکستانی نژاد پروفیسر نے فون پر آگاہ کیا ہے کہ اُن کے تھیسز کے مواد کو پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وی سی نے چوری کر کے ڈگری حاصل کی ہے اس کی شکایت پی ایم پورٹل، ایچ ای سی و دیگر اداروں کو کی ہے مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ متعلقہ ادارے اُن کی شکایت کے حوالے سے رپورٹ دیں۔ ریسرچ پیپرز کی چوری اور غلط استعمال کو روکنا انتہائی ضروری ہے متعلقہ ادارے ایسے اقدامات اٹھائیں کہ حق دار کو حق مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان پانچ یونیورسٹیز کے وی سیز کو ایچ ای سی ایک جامع سوال نامہ بنا کر بھیجے اور پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ فراہم کریں اور ذیلی کمیٹی نے ان پانچ جامعات کے تحقیقی مواد کی تفصیلات بھی آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ذیلی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر ز انجینئر رخسانہ زبیری، پارلیمانی سیکرٹری برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارنہ تربیت وجیہہ قمر، ایڈیشنل سیکرٹری  وزارت وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت، ڈی جی ایچ ای سی ویگر ایچ ای سی حکام نے شرکت کی۔