قائد اعظم محمد علی جناح ۔۔۔۔ بطور وکیل

32

 

اسلام آباد، 24 دسمبر(اے پی پی):وکیل کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح  اپنے پیشے کے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کرتے تھے، آپ کے کردار میں میں اعلیٰ فکر، غیر معمولی ذہانت اور حاضر دماغی کے ساتھ ساتھ قناعت ، صبرواستقلال اور تحمل بھی موجود تھا۔

آپ  “لنکنز ان”سے فارغ التحصیل ہوکر بیرسٹر کی حیثیت سے واپس ہندوستان پہنچے اور  بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا کر وکالت کا آغاز کیا، بطور وکیل جناح کی وکالت نے 1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جسکی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس  (سیاسی جماعت کا نمائندہ)کا مقدمہ لڑنا تھا، مقدمہ تھا کہ بمبئی کے میونسپل انتخابات میں کھڑے ہوئے یورپینز نے  کاوکس  کے ذریعے ہندوستانی عہدیداروں کو دھاندلی پر مجبور کیا تاکہ سرفیروز شاہ مہتہ کو کونسل سے باہر رکھ سکیں،قائد اعظمؒ  اس مقدمہ کو جیت نہ سکے لیکن انکے قانونی منطقوں اور وکالتی انداز نے انہیں مشہور کر دیا۔

کامیاب وکیل کے طور پر قائداعظم ؒ کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنما بال گنگا دھرتلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی، 1905ء میں بال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کیے گئے نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں،موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے  قائد اعظمؒ نے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا،نازک موقعوں پر وہ اصولوں، پیشے کے احترام اورعزت ِ نفس کی قیمت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے خواہ اسکے نتائج کتنے ہی سنگین ہوتے۔

ایک نازک موقع پرہائیکورٹ میں اثنائے بحث،قائد اعظمؒ کے اندر خطابت میں کسی قدر تُرشی اور سختی آگئی  جج صاحب نے کہا ” مسٹر جناح آپ اس وقت کسی تیسرے درجے کے جج کی عدالت میں خطاب نہیں کررہے،،

 قائد اعظم نے برجستہ جواب دیا…….جناب! آپکے سامنے بھی کوئی تیسرے درجے کا وکیل نہیں کھڑا ہے۔