سولر کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس معاف کرنا احسن فیصلہ ہے:  اراکین اسمبلی کابجٹ  بحث میں تبادلہ خیال

5

اسلام آباد،17جون  (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2022-23ء کے وفاقی بجٹ پر بحث جمعہ کو بھی جاری رہی، اس دوران اراکین نے تجویز دی کہ ملک بھر میں تمام ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کیا جائے، حکومت کی جانب سے سولر کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس معاف کرنا احسن فیصلہ ہے، زراعت کو ترقی دیکر ہم معاشی طور پر خودکفیل ہو سکتے ہیں، حکومت نے مشکل حالات میں کاشتکاروں کی بہتری کا بجٹ پیش کیا ہے، کراچی میں ٹرانسپورٹ اور پانی کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی رکن شاہدہ رحمانی نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ  خواتین کا پارلیمانی بزنس میں کردار سراہا جانا چاہیے۔ مخصوص نشستوں والوں کو بھی ترقیاتی فنڈز مختص کئے جائیں۔ اسلام آباد کے پارکوں میں ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے لئے بجٹ رکھا جانا چاہیے تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے وہاں کے لوگوں کی دیرینہ خواہش ہے، وہاں ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ ہے۔ کے فور کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ سمندر کے پانی کو صاف کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ کراچی حیدرآباد موٹروے مکمل نہیں ہے۔ بلین ٹری منصوبے والوں نے درختوں کو کاٹ کر اربوں روپے کمائے۔ بلاول بھٹو نے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکالا ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ حکومت نے مشکل حالات میں ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری محمد اشرف نے بجٹ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ زرعی شعبہ کو سنبھالا دینے کے لئے ڈیزل دستیاب نہیں ہے اس کے متبادل کے طور پر بیٹری سے گاڑیاں چلائی جائیں۔ ڈیزل پر ٹیوب ویل نہیں چلائے جاسکتے۔  سولر انرجی کے استعمال سے تمام مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔ کاشتکاروں کو سولر پر ٹیوب ویل چلانے کے لئے قرض دیا جائے۔

  پیپلز پارٹی کی رکن شگفتہ جمانی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ زراعت پر توجہ دے کر ہم خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان معاشی مسائل سے نکلنے کے لئے دن رات محنت کر رہی ہے اور معیشت کو ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گےجبکہ  گزشتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین دفعہ اضافہ کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کا حل ٹیکنو کریٹس کے پاس نہیں ہے بلکہ سیاسی استحکام میں ہے۔ م

ولانا عصمت اللہ نے کہا کہ نے ایوان سے مطالبہ کیا  کہ حکومت کوئٹہ ون کے مسائل کو اولین ترجیحات میں رکھے اور ترقیاتی فنڈز جاری کرے تاکہ وہاں پسماندگی کو دور کیا جاسکے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میر منور تالپور نے کہا کہ زراعت کا شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے، حکومت نے اس پر فوکس کیا ہوا ہے، زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جو ہمیں ان موجودہ مسائل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اہم پروگرام ہے، اس پروگرام کو وسعت دی جائے تاکہ اس میں مزید غریب خاندانوں کو شامل کیا جاسکے اور معاشرے کے غریب ترین لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ ملے۔

 رکن اسمبلی شہناز سلیم نے کہا کہ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تباہ شدہ معیشت کو مشکل سے نکالنے کے لئے مشکل فیصلے کئے جارہے ہیں۔انہوں نے مزید  کہا کہ  سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ  انڈس ہائی وے کے ڈیرہ اسماعیل خان سے راجن پور کے سیکشن کی مرمت ضروری ہے۔