چرچل پُل؛ تاریخی اہمیت کا حامل دریائے سوات پر چکدرہ کے مقام پر بنا لوہے کا پل

30

 چترال،16 جون (اے  پی پی ):  دریائے سوات پر چکدرہ کے مقام پر  لوہے کا ایک پل بنا ہوا ہے اس پل کو چرچل پُل بھی کہا جاتا ہے،  1903کا بنا ہوا یہ پُل پرانے  وقتوں میں اس علاقے کے لوگوں کے  بڑے  کام آیا ہے۔  اس پل کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ سٹیل کے بنے ہوئے اس پل کو اکثر لوگ ونسٹن چرچل پل کے نام سے پکارتے ہیں۔ 1901 میں رچرڈسن اینڈ  کریڈرز بمبی  سٹیل ملز سے  اس کا سامان ریل کے ذریعے درگئی اسٹیشن تک  لایا گیا  اس کے بعد خچروں اور گدھوں کے زریعے اس سامان کو چکدرہ تک پہنچا گیا۔ ستمبر 1901 میں اس پر تعمیر کی  کام کا آغاز کیا گیا  اور مارچ 1903 کو یہ پل ہر قسم کی ٹریفک کیلئے مکمل طور پر تیار ہوا۔ اس کی افتتاح کیلئے اس وقت کے صوبہ سرحد کے چیف کمشنر  سر آرتھر ہیرالڈ کو بلا یا گیا۔ اس زمانے میں اس پل پر کل 444000ہندوستانی روپے لاگت آئی۔ اس کے ساتھ ایک قلعہ بھی ہے  جس میں چترال سکاؤٹس کا ایک ونگ مقیم ہے۔ اس قلعہ کو پہلی بار مغل حکمرانوں نے 1586 میں بنایا تھا جسے 1850 میں برطانوی حکومت نے از سر نو تعمیر کیا۔

سال 2010 میں جب تباہ کن سیلاب آیا  تھا   تواسی دریا پر اس 1987 کا بنا ہوا ایک آر سی سی پل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا  مگر 1903 میں بنا ہوا یہ پل اپنی جگہ کھڑا رہا  ۔ ضلع لوئیر دیر، اپر دیر اور چترال  کا ملک کے دیگر حصوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع ہوچکا تھا مگر یہ پل ان  چار اضلاع کے لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ پل بھی ایک طرف سے ٹوٹ چکا تھا جس میں لکڑی کے تحتے رکھ دئے گئے جس پر لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے اور اپنے منزل مقصود تک پہنچ جاتے۔  اس پل کی دونوں جانب بیس ، بیس ہزار لوگ اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس  سے پہلے خیبر پحتون خواہ کی صوبائی حکومت اس کی ڈسمنٹل یعنی اکھاڑنے پر تلی ہوئی تھی تاکہ اسے کھول کر اس کا لوہا بیچ دیا جائے  مگر اکثریت اراکین صوبائی اسمبلی نے اس کی محالفت کی  اور بالآخر  2010 کے تباہ کن سیلاب میں یہ واحد سہارا تھا  جس سے لوگ پیدل  روزمرہ استعمال کا سامان اٹھا کر لایا کرتے تھے۔  یہ تاریحی پل اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے  تاہم اس کی مرمت اور دیکھ بال اب بھی ضروری ہے  تاکہ یہ تاریحی اثاثہ ضائع نہ ہو۔ اس کے ساتھ قریبی پہاڑی پر ایک مورچہ نماء  پیکٹ بنا ہوا ہے جسے چرچل پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 ضلع اپر اور لوئیر چترال کو ملانے  کی عرض سے دریائے چترال پر بھی سینگور کے مقام پر لوہے کا اسی طرح ایک پل بنا ہوا ہے۔ یہ پل پاک فوج کے انجنیرنگ کمپنی نے بنایا  جس پر 70 کروڑ روپے لاگت آئی۔ اگرچہ یہ پل چکدرہ پل کے نسبت چھوٹا ہے مگر اسے ریکارڈ کم وقت یعنی صرف دس مہینے میں تیار کیا گیا۔ امید ہے کہ یہ پل بھی چرچل پل کی طرح ایک صدی تک اسی طرح قائم رہے گا۔  اس پل کی تعمیر سے ضلع اپر چترال اور آس پاس کے لوگ بھی نہایت خوش ہیں ۔

 اس سے پہلے اپر چترال کے لوگ جب گرم چشمہ، سینگور یا  چترال یونیورسٹی جاتے تو پہلے بازار جاکر چیو پل کو عبور کرکے دریا کے اس پار واپس یہاں آیا کرتے تھے  اور چودہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے جس پر سڑک کی حرابی کی وجہ سے کم از کم تیس منٹ لگتے  اب اپر چترال کے لوگ نہایت آسانی سے آتے وقت اس پل کے ذریعے گرم چشمہ سڑک پر  سفر کرسکتے ہیں اور یہاں کے لوگ بھی بازار جائے  بغیر اسی پل  کو عبور کرکے بونی سڑک پر اپر چترال تک سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔سڑکیں اور پل کسی علاقے کی ترقی کیلئے پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے  جس سے سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ تجارت کا سامان بھی آسانی سے بڑی منڈیوں تک پہنچا یا جاسکتا ہے۔ تاہم عوام کو بھی چاہئے کہ ان اثاثوں کی حفاظت کیلئے کردار ادا کریں   تاکہ آنے والے نسلوں کیلئے بھی یہ تاریخی اثاثے محفوظ رہیں    اور ضرورت کے وقت ان کو استعمال کیا جاسکے جس سے یقینی طور پر سفر میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔