قومی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے بلوچستان میں خاتون اور اس کی دو بچیوں کے قتل کے واقعہ کی شدید مذمت، تحقیقات کا مطالبہ

6

اسلام آباد،22فروری(اے پی پی):قومی اسمبلی کے ارکان نے بلوچستان میں خاتون اور ان کی دو بچیوں کے قتل کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

 بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کئی ارکان نے اس حوالہ سے نکتہ ہائے اعتراض پر بات کی۔ جماعت اسلامی کے عبد الاکبر چترالی نے کہا کہ بلوچستان میں اندوہناک واقعہ ہوچکا ہے، ایک آدمی کی 5 بچیاں ایک صوبائی وزیرکی نجی جیل میں بند ہیں، خاتون نے متعلقہ حکام سے اپیلیں کیں، مگر دو بچوں سمیت خاتون کو قتل کر دیا گیا، لوگ دو دن سے دھرنا دے رہے ہیں، خاتون نے قرآن اٹھا کر کہا تھا کہ صوبائی وزیر اس میں ملوث ہیں، سپیکر رولنگ دیں کہ ایف آئی آر درج ہو، میں چیف جسٹس سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس کا نوٹس لیں۔ انہوں نے کہاکہ تین بچے ابھی بھی قید میں ہے۔

 ڈاکٹر شہناز بلوچ نے کہاکہ ماہل بلوچ جبری گمشدہ افراد میں شامل ہو گئی ہے، ہماری جماعت گزشتہ کئی برسوں سے اس حوالہ سے آواز اٹھا رہی ہے، مردوں کے بعد اب خواتین کی گمشدگی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ٹاٹ کے سکول سے پڑھ کر ڈاکٹر بنی ہیں، بلوچستان اور پنجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عورتوں کا اٹھانا شروع ہو گیا ہے، صوبہ میں نہ روٹی ہے، نہ کپڑا ہے اور نہ مکان ہے، پانی اور دیگر سہولیات بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 80 کے بعد پاکستان کی تباہی کا عمل شروع ہوا ہے، بلوچستان کی صورتحال اندوہناک ہے، عطا اللہ مینگل اور اختر مینگل نے پاکستان کو اون کیا ہے، ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے اور حق دار کو حقوق ملنا چاہیے۔

سید محمود شاہ نے کہا کہ کل کوہلو میں ایک دلخراش واقعہ ہوا ہے، تین افراد کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا ہے، اس کی مذمت کرتے ہیں، واقعہ کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئے اورملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ سائرہ بانو نے کہا کہ بلوچستان میں محرومیاں پہلے سے ہیں مگر اب بربریت شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے سربراہ نے کل استعفی دیا ہے اور بیان دیا ہے کہ وہ دبائو قبول نہیں کر سکتے، عدلیہ کوتحقیقات کرنا چاہئے کہ کون نیب کے سربراہ پر دبائو ڈال رہا ہے۔ نصیبہ چنا نے کہا کہ بلوچستان میں افسوسناک اور سنگین واقعہ ہوا ہے، ملک میں انصاف ہونا چاہئیے، ہمیں اس پر دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی حکومت کام کر رہی ہے۔

 محمد ابوبکر نے کہا کہ بلوچستان کا واقعہ ظاہرکر رہا ہے کہ 75  سال آزادی کے بعد بھی ہماری سوچ   پرانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا دکھ اپنی جگہ موجود ہے مگر لوگوں نے اب نجی جیلیں قائم کی ہیں، پاکستان کو بدنامی سے بچانے کیلئے احسن اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کیلئے سبسڈی کا موثر نظام ہونا چاہئیے۔ موٹرسائیکل چلانے والوں کو پٹرول پر سبسڈی دینا چاہئے کیونکہ یہ غریب لوگوں کی سواری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے نقصان میں جارہے ہیں ان کا سدباب ہونا چاہئیے۔ نجکاری صرف ان اداروں کی ہونی چاہیے جو نقصان میں جارہے ہیں، جو ادارے منافع کما رہے ہیں ان کی نجکاری درست نہیں ہے۔ انہوں نے کراچی کو سیف سٹی بنانے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ ناز بلوچ نے کہا کہ بارکھان واقعہ پر معزز ممبران بات کر چکے ہیں، یہ ایک دلخراش واقعہ ہے، ایک ماں اپنی فریاد پہنچا رہی تھی اور جس بیدردی سے قتل کیا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، یہ واقعہ بلوچستان میں ہوا ہے جہاں خواتین کو بنیادی حقوق تک رسائی نہیں ہے، تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے بلوچ بچیاں محروم ہیں۔ بلوچستان کو سالوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ تحقیقات کیلئے سپیکر اپنی رولنگ دیں اور تحقیقاتی رپورٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کی جائے، اس طرح کے واقعات سے ملک کا منفی تشخص دنیا میں جا رہا ہے۔ سپیکر نے کہاکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور وفاق اس حوالہ سے صوبہ سے رپورٹ حاصل کر رہا ہے۔