قومی اسمبلی نے بعض ترامیم کے ساتھ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی منظوری دے دی

8

اسلام آباد،29مارچ  (اے پی پی):قومی اسمبلی نے بعض ترامیم کے ساتھ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی منظوری دے دی۔ بدھ کو وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں بل ایوان میں فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری کے بعد انہوں نے بل پیش کیا جس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا ہے کہ اس ادارے کا اصل کام قانون سازی ہے، اس سے کوئی عدالت یا ادارہ اس کو روک نہیں سکتا تاہم ازخود نوٹس بل لانے میں عجلت کی بجائے تمام فریقین سے مشاورت کی جانی چاہئے تھی، کے پی کے سیلاب متاثرین کو تاحال ریلیف نہیں  ملا ، ہمیں اپنے اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا، عدلیہ کی مراعات دنیا میں 5 ویں اور کارکردگی 128 ویں نمبر پر ہے۔

تحریک انصاف کے رکن احمد حسن ڈیہڑ نے کہا کہ وہ اس بل پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، اس بل سے غریب کو انصاف ملے گا، یہ بل وکلاء کا دیرینہ مطالبہ تھا، اس ملک کو تباہ کرنے کی عالمی سازش ہو رہی ہے، حامد خان نے اس بل کو سرا ہا ہے، ان کی انارکی ملک کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہے، سوموٹو کا فیصلہ سینئر ترین ججوں کے اختیار سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، اس سے قانون کی حکمرانی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کے رکن صالح محمد نے کہاکہ بل عجلت میں پیش ہوا، ہم بھی عدلیہ میں اصلاحات کے حق میں ہیں، اس بل میں ہم سے بھی ترامیم لی جائیں، ان ترامیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد نے کہا کہ بل پیش کرنے پر وزیر قانون اور ایوان کا شکریہ ادا  کرتے ہیں، یہ وقت کا تقاضا تھا، یہ عدلیہ کی آزادی کیلئے ہے، عام آدمی کو اس بل سے انصاف ملے گا، سوموٹو کے حوالے سے ون مین شو کا خاتمہ ہوگا، حکومت اور اپوزیشن نے وکلاء کا ترجمان بل پاس کیا ہے، اچھے قانون بنانے میں جتنی جلدی ہو وہ قابل ستائش ہے، اس بل کی منطوری پر حکومت اور اپوزیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

 ایم کیو ایم پاکستان کی رکن کنور زہرہ نے کہاکہ اس بل کے حوالے سے تاخیر نہ کریں، ایوان کے اوپر خوف  کی تلواریں ہیں، قوانین پارلیمان بناتا ہے، ان کی محنت کی بجائے آمریت دیکھ کر فیصلے ہوتے ہیں، مطلق  العنان بنا کر ہم نے دیکھ لیا، شاید ہمارا ظرف یہاں تک نہیں ہے۔ اس بل نے ہمارا بھی تحفظ کیا ہے، پارلیمنٹ کے ارکان کو چور، ڈاکو کہا جاتا ہے اور ہم کہیں اس کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے، اس پارلیمان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عدلیہ کا درست راستہ اور پارلیمان کا تحفظ کیا ہے۔

 عامر جیوا نے کہاکہ یہ پارلیمان تمام مذاہب،لسانی اور صوبوں کا مشترکہ ایوان ہے، آئین ہر مسلک  اور عقیدہ کے حامل لوگوں کو تحفظ دیتا ہے، سب مساوی شہری ہیں، مولانا عبدالاکبر چترالی کے ریمارکس افسوسناک ہیں۔ جویریہ ظفر آہیر نے کہا کہ ہم نے اچھے قوانین بنانے میں تاخیر کرکے سمت کا درست تعین نہیں کیا، یہ بل بہت سال پہلے لایا جانا چاہئے تھا، اس بل میں عدلیہ کی آزادی کے آڑے کوئی چیز نہیں ہے، ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کر سکے۔

 وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہاکہ وزیراعظم نے مربوط اور واضح صورتحال پیش کی، وزیراعظم پابند نہیں لیکن ہر فیصلہ سازی کابینہ کو ساتھ لے کر کرتے ہیں، اس کی طاقت اور مقبولیت ہر ایک کیلئے ہوتی ہے، عدلیہ میں پہلی بار تقسیم دیکھی ہے، یہ عدلیہ اور ملک کیلئے اچھی نہیں ہے، قانون کی حکمرانی اور قانون سازی اس پارلیمان کا حق ہے جس میں کسی حد تک مداخلت ہو رہی ہے، پارلیمان جب اپنے  آزادانہ حق کو استعمال کر رہا ہے تو اس پر شور نہیں ہونا چاہئے، آمر نے مرضی کا بنچ بنا کر  بھٹو کا عدالتی قتل کیا، اس نے دنیا کی تاریخ موڑ دی، جنرل ضیاء نے بنچ کی تشکیل سمیت دیگر اختیارات فرد واحد کو تفویض کئے، اس قانون کو ختم کرنے میں 43 سال لگے، یہ پارلیمان کا حق ہے، اس میں تصادم کی صورتحال  نہیں ہے، پارلیمان نہیں چاہے گی کہ ملک کو ہیجانی کیفیت میں لے جائیں، پارلیمان اپنے دائرہ اختیار میں اپنا حق استعمال کر رہا ہے، مقننہ بھی چاہتی ہے کہ صورتحال امن و امان کی ہو، سیاسی انتشار کے ذریعے معاشی حالات سب سے اہم ہیں، اس کے حل کیلئے سیاسی راہ ہموار ہونی چاہئے، پارلیمان اور مقننہ میں  تصادم کا تاثر درست نہیں ہے، ہم مستحکم حکومت چاہتے ہیں، ہم مستحکم گورننس چاہتے ہیں، ہم سیاست نہیں کر رہے، یہ کھلواڑ فرد واحد نے کیا ہے جو اس وقت بھی لاڈلا بنا ہوا ہے، پٹرول بم اور ریاست کو چیلنج کرنے والے کی طرح کی صورتحال ہم نہیں چاہتے، لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ سخت قدم کیوں نہیں اٹھاتے، وہ چاہ رہے ہیں کہ لاشیں گریں، ہم نہیں چاہتے کہ لاشیں گریں۔ انہوں نے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم سے کون مستفید ہو رہا ہے، اس سے لاڈلے مستفید ہوتے ہیں، ہماری تو خواتین کو اٹھایا جاتا رہا، ہم عدالتی کارروائی اور الیکشن سے بھاگ نہیں رہے تاہم انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہئے، سپریم کورٹ کی جانب سے اس بل کو سراہا جانا چاہئے۔

تحریک انصاف کے رکن سردار ریاض مزاری نے کہا ہے کہ اس پارلیمان کا اصل کام قانون سازی ہے، یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کو عدالت میں کیس کی وجہ سے اس قانون کی ضرورت درپیش ہے، یہ قانون بہت پہلے بننا چاہئے تھا، جو قانون بھی ہم بناتے ہیں وہ مستقبل کیلئے ہوتا ہے، ماضی میں جو قانون جنہوں نے بنائے انہوں نے بھگتے، تحریک انصاف کے قانون دان حامد خان نے بھی اس کی حمایت کی۔ وجیہہ قمر نے کہا کہ اصلاحات کا عمل تکلیف دہ ہوتا ہے، سٹیٹس کو کے ساتھ کام جاری رکھنا آسان ہوتا ہے، گذشتہ حکومت نے اصلاحات اور احتساب کی بات کی اور ہم جیسے بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے تاہم نہ تحریک رہی نہ انصاف رہا، اسی ایجنڈے کو لے کر اگر یہ حکومت آگے بڑھ رہی ہے تو ہم سب کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔

 جمعیت علماء اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور نے کہا کہ آج درست وقت پر قانون سازی ہو رہی ہے اس پر حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قانون سازی اس پارلیمان کا حق ہے اور ہم اپنا حق استعمال کر رہے ہیں اور ہم اپنی حدود سے باہر نہیں نکلے ہیں، فاٹا کے عوام نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا ہے لیکن تین سال سے تاریخ نہیں دی جا رہی۔ جی ڈی اے کی رکن سائرہ بانو نے کہا کہ کیا مفت اور فوری انصاف کی ضرورت صرف اشرافیہ کو ہے، یہ اصلاحات کب ہوں گی، عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ تحریک انصاف کے رکن محسن لغاری نے کہا کہ اس پر سب کا اتفاق تھا کہ اس قسم کا بل ہونا چاہئے تھا تاہم یہ دیکھا کہ ہم درست طریقہ سے کر رہے ہیں، پارلیمان بالادست ادارہ ہے، وہ قانون بناتی ہے اور جب قانون بن جاتا ہے تو ہم اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔

 وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون آئین کے تابع ہے، جو قانون بنایا جا رہا ہے یہ سپریم کورٹ کو کہے گا کہ وہ اپنے ادارے کی حدود میں جہاں خلاء ہے، اس کو دور کرے، رولز ہمیشہ قانون کے تابع اور قانون ہمیشہ آئین کے تابع بنتا ہے، سپریم کورٹ میں بنچ بنانے کا اختیار کسی وزیر کو نہیں بلکہ وہ اختیار چیف جسٹس اور ان کے ساتھ سنیارٹی پر پہلے دو ججوں کو دیا ہے، یہ قرین انصاف ہے، اس سے اور زیادہ بہتری آئے گی، آئین کا آرٹیکل 188 نظرثانی کا آئینی حق دیتا ہے، اس کے علاوہ شفاف ٹرائل کے حوالہ سے قانون موجود ہے، اپنی مرضی کے وکیل کی تعیناتی بھی بنیادی حق ہے، یہ مداخلت تب تصور ہوتی جب ہم کسی اجنبی کو وہاں ایسا اختیار دیتے۔

 وزیر قانون نے کہا کہ یہ ایوان اپنے اختیار سے بخوبی آگاہ ہے، یہ قانون سازی آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔ سپیکر نے تحریک ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی جس کے بعد انہوں نے بل کی شق وار منظور لی۔ شق پانچ کی ذیلی شق ون میں محسن داوڑ نے ترمیم پیش کی۔ وزیر قانون نے اس کی مخالف نہیں کی اور اسے مناسب ترمیم قرار دیا۔ محسن داوڑ نے کلاز فائیو سب کلاز ٹو میں ترمیم پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قانون اپنی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو گا تاہم اس سے قبل جو لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں تاہم انہیں اس کا ازالہ کیسے ملے گا کیونکہ انہیں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ بار کی سینئر قیادت نے بھی یہ تجویز دی تاکہ اس قانون سے متاثر شخص 30 دن میں اپنی نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ترمیم تو اچھی ہے تاہم اس کو بعد میں زیر غور لایا جا سکتا ہے۔ انہوں  نے کہا کہ جب قانون بن رہا ہوتا ہے تو وہ آنے والے وقتوں کیلئے ہوتا ہے، محسن داوڑ کا نکتہ نظر درست ہے، اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد ملتوی اور نظرثانی کی اپیل کیلئے 30 دن کا وقت دیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ ہم پاکستان کے عوام کی نمائندگی کیلئے یہاں موجود ہیں، پاکستان کی پارلیمان نے آرٹیکل 25 آئین پاکستان میں شامل کیا تو اس کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے، یہ آرٹیکل پاکستان کے ہر شہری کو قانون کے مطابق برابر قرار اور یکساں تحفظ دیتا ہے، ہم قانون کے سامنے جوابدہ بھی ہیں اور تحفظ بھی حاصل ہے، یہ پارلیمان اپنی خود مختاری، قانون سازی اور پاکستان کے عوام کے حق حاکمیت کے حوالہ سے ایک اہم سنگ میل حاصل کرنے جا رہا ہے تو ہمیں بار بار اس کا اعادہ کرنا چاہئے کہ پاکستان کے آئین کے ابتدائیہ میں یہ لکھا گیا کہ اﷲ کی حاکمیت کے بعد پاکستان میں اس ملک کے منتخب نمائندوں کو حاکمیت دی گئی ہے، کسی اور ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا گیا، ہم اپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے یہاں کھڑے ہیں، صحیح کام کرنے کیلئے ہر وقت صحیح ہے، آئین ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، عدلیہ جو آئین کا ایک ستون ہے اس قانون سے شفافیت بھی لائی جا رہی ہے۔

 رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ یہ بل بہت اچھا ہے، یہ کام سپریم کورٹ اگر خود کرتی تو اچھا ہوتا، تین سال فل کورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو یہ قانون سازی کرنا پڑی۔ وزیر قانون نے کہا کہ اگر محسن داوڑ کی ترمیم ہائوس منظور کرتا ہے تو اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم بھی اس شق کی حمایت کرتے ہیں۔ سپیکر نے محسن داوڑ کی ترمیم ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔ شق وار منظوری کے بعد وزیر قانون نے ترمیم کے ساتھ بل ایوان میں منظوری کیلئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔