آئی پی ایم جی نے خواتین کے مسائل کے حل کیلئے مربوط بنیاد فراہم کی ہے،میاں ریاض حسین پیرزادہ

32

اسلام آباد۔6جون  (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے مسائل چند علاقوں میں کچھ ثقافتی استثناء کے ساتھ ملک کے تمام حصوں میں ایک جیسے ہیں ۔ بین الصوبائی وزارتی گروپ  (آئی پی ایم جی)  نے خواتین کے مسائل کے حل کیلئے مربوط بنیاد فراہم کی ہے، ایک چھت کے نیچے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر ان  معمولی ثقافتی فرق سے متعلق مسائل کا سامنا اور اس خلاء کو ختم کرسکتے ہیں جن کا ہماری خواتین کو سامنا ہے۔  تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی اور  رابطے کے ساتھ ہی ہم صنفی حساس لچکدار پالیسیوں اور ثقافتی و سماجی رویوں کی تبدیلی کے ذریعے ملک میں پائی جانے والی عدم مساوات کو دور کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو یہاں بین الصوبائی وزارتی گروپ (آئی ایم پی جی) کے 20ویں اجلاس کی افتتاحی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس کا اہتمام قومی کمیشن برائے وقار نسواں  (این سی ایس ڈبلیو ) نے یو این ویمن کے تعاون سے کیا تھا۔ 20 ویں اجلاس کا بنیادی ایجنڈا نیشنل جینڈر ڈیٹا پورٹل (این جی ڈی پی) پر اپ ڈیٹ ہونا اور صوبائی رابطہ کے طریقہ کار کا جائزہ لینا تھا۔ شراکت داروں کے کردار کو مضبوط بنانا اور صنفی ڈیٹا و معلومات کے لئے ایک معتبر ذریعہ کے طور پر این جی ڈی پی قائم کرنے کی حکمت عملی کی نشاندہی کرنا شامل تھا ۔ وفاقی وزیر نے  این سی ایس ڈبلیو اور یو این وومن کو آئی پی ایم جی کی شکل میں ایک انتہائی اہم پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوششوں کی تعریف کی جہاں مرکز اور صوبوں سے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز شرکت کرتے ہیں ۔ اس پلیٹ فارم پر پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے مطلوبہ مقصد کے حصول کے لئے مرکز اور صوبوں سے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز آپس میں بہتر طریقے سے روابط قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی ترقی کے لئے کام کرنے والی خاص طور پر صوبائی خواتین مشینری، خواتین کی آزادی کے لئے اسٹریٹجک ترجیحات اور منصوبے طے کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں کا ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ تشویشناک بات پاکستان کی انتخابی فہرستوں میں 12.5 ملین کے قریب صنفی فرق ہے جو پورے سیاسی عمل میں خواتین کی بہتر اور موثر شرکت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔  تمام سطحوں پر اختیارات، فیصلہ سازی اور قیادت تک خواتین کی مساوی رسائی، خواتین سے متعلق پالیسی سازی میں اہم تبدیلیاں متعارف کرانے کے لیے ایک ہمہ گیر قدم ثابت ہو سکتی ہے۔  انہوں نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے قومی اور بین الاقوامی وعدوں کی روشنی میں حکومت کے صنفی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کریں اور پاکستان میں معاشی بہبود، ترقیاتی پائیداری اور سماجی امن و ہم آہنگی کے لیے اپنا اہم کردار ادا کریں۔قبل ازیں این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار، کنٹری نمائندہ یو این ویمن شرمیلا رسول،  آندریا ایس ہلیئر ایڈوائزر جینڈر سیکیورٹی، بیورو آف سٹیٹسکس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹس اور تمام صوبوں کے وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹس اور صوبائی کمیشنوں کے نمائندوں نے خواتین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔  اجلاس میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت دیگر نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ  یہ گروپ 2009 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ صوبوں اور دیگر خطوں میں کام کرنے والی تمام سرکردہ سرکاری تنظیموں کے درمیان صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے ہم آہنگی کو بڑھایا جا سکے۔