اسلام آباد۔8جون (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمد اسحاق ڈار نے کہاہے کہ وزیراعظم محمدشہباز شریف نے سیاست کی بجائے ریاست کوترجیح دی اورملک کودیوالیہ ہونے سے بچایا، نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائیگا، زراعت پرخصوصی توجہ دی جائیگی، برآمدات میں آئی ٹی کا شعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، محصولات کے نئے ذرائع اور وسائل تلاش کئے جائیں گے، حکومتی اقدامات سے انشاء اللہ 3.5 فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، حکومت فائیو ایز (ایکسپورٹ، ایکوئٹی، انرجی، امپاورمنٹ اور انوائرمنٹ) کو ترجیح دے رہی ہے، حکومت کی ترجیح ہے کہ کلی معیشت مستحکم ہوں اور نمو کی بنیاد پائیدار ہو، تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے۔جمعرات کویہاں قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2022-23 کے اجراء کے موقع پر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی پروفیسراحسن اقبال اوروزیرمملکت ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک مشکل وقت سے گزررہاہے، گزشتہ ساڑھے 4 برسوں میں ملک کی 24 ویں بڑی معیشت کو47 ویں معیشت بنادیا گیا، 2017-18 میں پاکستان کی گروپ 20 میں شمولیت کی باتیں کی جارہی تھیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ کہ ہماری معیشت نیچی چلی گئی، ملک کو دوبارہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں لانا ایک بڑا چیلنج ہے، اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف پائیدارمعاشی ترقی حاصل کرنی ہے بلکہ بیرونی ادائیگیوں کوبھی یقینی بنانا ہے، ان مشکلات کوتمام شراکت داروں کے تعاون سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری ٹیم نے مسلسل محنت کی اورطویل عرصہ کے بعد حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ نہ صرف کم ہوابلکہ یہ فاضل ہوگیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی معیشت میں استحکام کیلئے اقدامات کاسلسلہ جاری رہے گا، ہماری معیشت میں استعداد اورجان ہے، ہمیں امیدہے کہ ہم 1999 اور2013کی طرح ملک کومعاشی مشکلات سے نکال کرترقی کی راہ پرگامزن کریں گے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تمام تکنیکی معاملات مکمل ہیں، پاکستان نے 9 ویں جائزہ کے تحت تمام پیشگی اقدامات کرلئے ہیں، ہم اس پوزیشن میں ہے کہ کوملک کے دیوالیہ ہونے کاکوئی خطرہ نہیں ہے، ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کومکمل کیا جائے، آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ حکومت کے وعدوں کو پوراکرنے کیلئے ہم نے مشکل فیصلے کئے جس کی ہم نے سیاسی قیمت بھی اداکی ہے مگرہمارے لئے سیاست سے ریاست اہم ہے، ہم نے بجلی، توانائی اوردیگرشعبوں میں اصلاحات کے دلیرانہ فیصلے کئے مگر اس کے ساتھ ساتھ جامع اورپائیدارمعیشت کی طرف ہمیں جانا ہے، اس سے سرمایہ کاروں کااعتماد بحال ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ 2013 میں ہم نے سٹاک مارکیٹوں کاانضمام کیا جس سے 2013 سے 2018 کے دوران انڈیکس 19ہزار پوائنٹس سے بڑھ کر50 ہزار پوائنٹس سے تجاوزکرگیا، ہماری مارکیٹ کیپٹلائزیشن 100 ارب ڈالر تک بڑھ گئی جو ڈی ویلیو ایشن اورگزشتہ حکومت کی ناقص کارگردگی سے 25 ارب ڈالر تک گرگئی۔انہوں نے کہاکہ جن مشکل حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تومعیشت کے تمام اشاریے زوال کی طرف جا رہے تھے، حسابات جاریہ کے کھاتوں اور تجارتی خسارہ میں نمایاں اضافہ ہواتھا، ہم اگر حکومت نہ سنبھالتے تو خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوجاتا کیونکہ گزشتہ حکومت کے آخری سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 6.4 ارب ڈالرکی کمی آئی تھی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پراپیگنڈہ پرتوجہ دینے کی بجائے ہمیں اپنی معیشت پراعتماد کرنا چاہئے، موجودہ حکومت نے معیشت میں زوال کے عمل کوروک دیا ہے اوراب ہمیں اس معیشت کواٹھان کی طرف لیجانا ہے۔گزشتہ حکومت جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد بتا رہی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلے سال منفی بڑھوتری کے بعد بیس(base) کو تبدیل کرلیاگیا جس سے اشاریوں پرفرق پڑا،2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ حکومت کے دورمیں 7.9 فیصد پرپہنچا حالانکہ ہماری سابق حکومت نے ضرب عصب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کیلئے مالی وسائل بھی فراہم کئے تھے۔گزشتہ حکومت نے تجارتی خسارہ بڑھا دیا، پالیسی ریٹ کو 6.1 سے بڑھا کر14 فیصد پرپہنچا دیاگیا، سابق حکومت کے دورمیں اوسط ماہانہ گردشی قرضہ 330 ارب روپے تھا، ہمارے سابق حکومت کے دورمیں یہ 129 ارب روپے ماہانہ تھا، سابق حکومت نے 2467 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑا ہے، اسی طرح 2018میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کاحجم 2018 میں 3.7 فیصدتھا جو پی ٹی آئی حکومت نے 13.9 فیصدکی سطح پرپہنچا دیا، مجموعی طورپر قرضہ کو25ہزار ارب روپے سے بڑھا کر49 ہزار ارب پرپہنچادیاگیا، سابق حکومت کے دورمیں قرضوں میں مجموعی طورپر97 فیصداضافہ ہوا، پالیسی ریٹ بڑھانے سے بھی قرضوں میں 7ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ سابق حکومت نے معیشت کی تابوت میں آخری کیل آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کوتوڑنے کی صورت ٹھونک کرکیا اس اقدام سے بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثرہوئی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں عالمی سطح پرجی ڈی پی کی شرح میں 50 فیصدکمی ہوئی ہے، اسی طرح عالمی سطح پرمہنگائی کی شرح میں 51 فیصداضافہ ہوا، عالمی تجارت میں تقریباً 5 فیصدکی کمی ہوئی، جس کے اثرات سے پاکستان بھی متاثرہواہے، اس کے ساتھ گزشتہ سال آنیوالے تاریخ کے بدترین سے پاکستان کوتقریباً30 ارب ڈالرکانقصان ہواہے، حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کیلئے کام کررہی ہے، ابتدائی طورپر4 برسوں میں 15 ارب ڈالرکا تخمینہ ہے جس میں آدھا حصہ پاکستان کی حکومت اورباقی کے فنڈز ممالک اوردوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت دار فراہم کریں گے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت نے جاری مالی سال میں کفایت شعاری کے اقدامات کئے، غیرہدفی زرتلافیوں کوختم کیاگیا، تمام بیرونی واجبات اورذمہ داریوں کی وقت پرادائیگی کویقینی بنایاگیا، درآمدات میں اشیاء خوراک اورادوایات کوترجیح دی گئی۔