اسلام آباد،15جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کے وفاقی بجٹ پر بحث جمعرات کو بھی جاری رہی، اس دوران ارکان نے گزشتہ حکومت کی معاشی تباہ کاریوں کے باوجود متوان اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر معاشی ٹیم کو مبارکباد دی،بجٹ میں کاشتکاروں،محنت کشوں اور سرکاری ملازمین کو ریلیف دیاگیا ہے جس سے ان کی مشکلات میں کمی آئے گی،بجٹ میں زراعت پر خصوصی توجہ مختص کی گئی ہے،اسی شعبہ پر توجہ دے کر ہی ہم بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن انجینیئر صابر حسین قائمخانی نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے ہر شہری کو یکساں حقوق اور آزادیاں حاصل ہیں، ہمارے سیاسی زعما کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کے واقعات کے بعد بھی سزا نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں، ہم حکومت کے اتحادی ہیں مگر ہم انارکی نہیں چاہتے اور نہیں چاہتے کہ ملک کا نقصان ہو۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ بناتے وقت ہم سے رائے نہیں لی گئی،بجٹ کے خسارہ کو پوراکرنے کیلئے طریقہ کارواضح نہیں ہے، 1100 ارب سے زیادہ کے ترقیاتی بجٹ میں زیادہ ٹیکس حاصل کرنے والے شہروں کیلئے زیادہ منصوبے رکھنے کی ضرورت تھی، جن شہروں سے ہم 92 کھرب ٹیکس حاصل کررہے ہیں ان کیلئے بجٹ میں 50 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مہنگائی کا ہدف 21 فیصدبتایا جارہاہے مگرحقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔ہماری برآمدات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے اس کیلئے پالیسیاں وضع کرنا ہوگی۔دفاع کیلئے بجٹ میں اضافہ کیاجائے کیونکہ روپیہ کی قدرمیں کمی ہوئی ہے، بی آئی ایس پی کیلئے 450 ارب کا بجٹ مختص ہے جو خوش آئند ہے، اس پروگرام کے ساتھ ساتھ خواتین اورنوجوانوں کوچھوٹے قرضے بھی دئیے جائیں۔انہوں نے تعلیم اورصحت کیلئے بجٹ میں اضافہ اورگزشتہ سال سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کے منصوبوں کوجلدمکمل کرنے کامطالبہ کیا۔انہوں نے کہاکہ بڑے مالیاتی اداروں کوایڈہاک ازم پرچلایا جارہاہے اس حوالہ سے پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے،5 ہزار کے بڑے نوٹوں کوواپس لیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری محمد اشرف نے کہا کہ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔نہروں سے بجلی پیدا کرنے سے سستی ترین بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔سائنس وٹیکنالوجی پر توجہ دی جائے،متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر خاص توجہ مرکوز کی جائے۔انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ پر خصوصی توجہ دی جائے،کھاد پر ٹوکن کا سلسلہ کامیاب نہیں ہے،اس سے بہتر ہے کہ کھاد کی قیمتوں میں کمی جائے۔کاٹن پر توجہ ضروری ہے۔کرم کرش ادویات کی کوئی فیکٹری پاکستان میں نہیں ہے۔یہ پیداوار پاکستان میں ہونی چاہیے۔ شمیم آرا پہنورنے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ خوش آئند ہے، یومیہ اجرت پرکام کرنے والے لوگوں کیلئے بھی سوچنا چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں کیلئے قرضہ کی حد میں اضافہ اورزرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پرمنتقل کرنے سے ملک میں زراعت کے شعبہ کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے بی آئی ایس پی کے بجٹ میں اضافہ کو خوش آئند قراردیا اورمشاہیرہ میں اضافہ کی ضرورت پرزوردیا۔
انہوں نے علاقہ میں بجلی اورپانی کے مسائل کو حل کرنے کامطالبہ کیا۔نزہٹ پٹھان نے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ موجودہ مشکل حالات میں حکومت نے متوازن بجٹ دیا ہے۔اس وقت عالمی سطح پربھی مہنگائی اوردیگرمعاشی مشکلات موجود ہیں۔ہم حکومت کی معاشی ٹیم کومتوازن بجٹ دینے پرمبارکباد پیش کرتے ہیں۔انہوں نے بجٹ میں استعمال شدہ کپڑوں پرٹیکس کی چھوٹ کی بھی تعریف کی اورکہاکہ ہمیں لوگوں کوامداد دینے کی بجائے انہیں روزگارفراہم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ نزہت پٹھان نے 9 مئی کے واقعات کو افسوسناک قراردیتے ہوئے کہاکہ ان واقعات میں ملوث افراد کوقانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں منحرف لوگ کہاجارہاہے مگر یہ تاریخ ہے کہ انہی 20 لوگوں نے اس پارلیمان کوبچایا ہے، اب وہی لوگ اس ایوان میں واپس آنے کیلئے منت سماجت کررہے ہیں۔ میرمنورتالپورنے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ گزشتہ سال آنیوالے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کواب بھی مشکلات کاسامنا ہے، متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کے منصوبوں کوجلد مکمل کیا جائے، بجٹ میں آئی ٹی اورزراعت کیلئے مراعات خوش آئندہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ کھارے پانی کوصاف کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔انہوں نے کہاکہ شیل نے ملک میں کاروباربند کرنے کااعلان کیاہے جس سے بہت سارے لوگ بے روزگارہوجائیں گے۔انہوں نے کہاکہ سیلاب سے سندھ میں زرعی شعبہ بری طرح سے متاثرہواہے، یہ شعبہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، سندھ اوربلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کسانوں کوزرعی قرضوں میں رعایت دی جائے۔انہوں نے کہاکہ سندھ کو پانی کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق پانی فراہم کیا جائے۔
مولانا کمال الدین نے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ قرضوں کے مسئلہ کومستقبل بنیادوں پرحل کیاجائے، جب تک ہم اپنے اداروں کوکنٹرول میں نہیں لائیں گے اس وقت تک قرضوں کاناسورجاری رہے گا۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آرکو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، جو لوگ ٹیکس چوری میں ملوث ہیں انہیں ایف بی آر کے اہلکاروں کی معاونت حاصل ہوتی ہے، اسی طرح سمگلنگ میں بھی اہلکاروں کی معاونت شامل ہوتی ہے، ہمیں خزانہ کونقصان پہنچانے والے عوامل کاتدارک کرنا ہوگا، ہمیں بلوچستان کے بنجرعلاقوں کوقابل کاشت بنانے پرتوجہ دینا ہوگی، کچھی کینال کا فیز ون بن چکا ہے، فیز ٹو پرابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، یہ منصوبہ مکمل ہونے سے ملک میں زراعت کے شعبہ میں انقلاب آئیگا۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فائدہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو ہونا چاہیے۔بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور ہونی چاہیے۔بلوچستان اور ایران کی سرحد پر ایک مارکیٹ بنائی گئی ہے اس سے ریونیو میں اضافہ اور روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے۔اتحادی جماعتوں نے تمام اختلاف کے باوجود مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کے ملک کے مفاد کو مقدم رکھا۔نوازشریف نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام فریقین کو ایک میز پر بٹھایا۔دہشت گردوں کو دوبارہ متحرک کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔وزرا اپنی وزارتوں میں بھرپور کام کرتے ہیں،اتحادی حکومت کی کاوشوں سے پاکستان سفارتی اعتبار سے دنیا میں تنہائی سے نکل آیا۔وزارت اطلاعات کی جانب سے صحافیوں کے لئے ہیلتھ انشونس فنڈ کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ گزشتہ حکومت نے اقتصادی تباہی، بے روزگاری،پاکستان کے خارجہ تعلقات خراب کئے۔شہباز شریف حکومت نے تاریخی کام کئے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رکن محمد ابوبکر نے کہا کہ پاکستان کے پاس بہترین وسائل ہیں،ان پر آج تک کام نہیں کیا گیا،قیمتی پتھروں کے ذخائر کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکا۔ہماری جماعت نے بجٹ تجاویز دیں ان سے مستفید ہوکر بہتری لائی جاسکتی تھی۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اچھا ہے لیکن کیش امداد کی بجائے متاثرین کو ہوم انڈسٹری کے ذریعے بنگلہ دیش ماڈل پر روزگار دیا جائے۔ نقصان میں چلنے والے اداروں کو بیل آئوٹ پیکج کا سلسلہ بند کیا جائے، تعلیم کے لئے فنڈز میں اضافہ کریں۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن شما النسا نے بجٹ کو عوام دوست قراردیتے ہوئے کہا کہ کراچی اور ٹھٹھہ میں پانی کی ترسیل کے لئے گریٹر واٹر سکیم کے لئے فنڈز بڑھائے جائیں۔کسان دوست بجٹ پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے،50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنا اہم منصوبہ ہے،سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں ریلیف اہم ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ کا دائرہ بڑھایا جانا قابل تحسین کاوش ہے۔
مسرت رفیق مہیسڑ نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت نے اچھا بجٹ دیا ہے،محنت کش اور کاشتکاروں کے لئے بہتر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔اس روش کی مذمت کرتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے ایک بڑی آبادی کو ریلیف دیا گیا ہے۔یہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔