اسلام آباد۔8اگست (اے پی پی):لاہور میں 86 فیصد نکاح رجسٹرار کا خیال ہے کہ دلہن اپنے نکاح نامے کی شرائط پر بات چیت کرنے کی اہل نہیں ہےجبکہ 85 فیصد کا خیال ہے کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق خواتین کو سونپے جانے سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا اور 92 فیصد کا خیال ہے کہ بیوی کی کفالت کا حق اس کے شوہر کی اطاعت سے مشروط ہے۔یہ اعداد و شمار منگل کو ”پنجاب میں نکاح ناموں کے تشخیصی مطالعہ کے حوالے سے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں مرکز برائے انسانی حقوق (CFHR) نے مساوی اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اشتراک سےمنعقدہ سیمینار میں پیش کیے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں، سندھ شہلا رضانے کہا کہ نکاح نامہ کم عمری کی شادی کے غیر قانونی عمل کو روک سکتا ہے، اس کے ذریعے بچوں کی شادی کے قانون کو مکمل طور پر لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ عائلی قوانین کی ماہر سینئر وکیل طاہرہ حسن نے کہا کہ خواتین کے شادی کے حقوق کے تحفظ میں قانون سازی کی کمی نہیں بلکہ ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں حائل ہیں جو ان حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔سی ای اومساوی فاطمہ یاسمین بخاری نے کہا کہ نکاح نامہ پر ہونے والی یہ اسٹڈی خواتین کے شادی کے حقوق پر بات چیت کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر نکاح نامے کو صحیح طریقے سے سمجھا اور بھرا جائے تو یہ خواتین کے لیے ضروری تحفظات فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ اس موقع پر چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغانے کہا کہ یہ مطالعہ ملک بھر میں نکاح ناموں کی شقوں اور خواتین کے شادی کے حقوق کے بارے میں علم اور آگاہی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ عام طور پر نکاح کے وقت جو کالم کراس کیے جاتے ہیں وہ دراصل شادی میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے ضامن ہوتے ہیں ۔ مطالعہ کے نتائج شادی کے قانون کے مؤثر نفاذ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جو نکاح رجسٹرارز کو نکاح نامے کے کالموں کو بھرنے کے لیے پابند کرتے ہیں ۔ مطالعہ کے مصنف سیویم سعادت کا کہنا تھا کہ نکاح نامے میں اہم گمشدہ معلومات قانون کے نفاذ میں رکاوٹ کھڑا کرتی ہیں مثال کے طور پرجہاں نکاح نامہ میں دلہن کی عمر یا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر نہیں لکھا گیا ہےوہاں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ یہ شادی بچوں کی شادی ہو سکتی ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کہا کہ نکاح نامہ فریقین کے حقوق پر مشتمل معاہدہ ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے۔مطالعے میں خواتین کے شادی کے حقوق کی حیثیت کا جائزہ لیا گیا تاکہ موجودہ قانون سازی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں موجود خلاء کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے جو پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق تک رسائی اور ان پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے ۔ مطالعہ کے ذریعے جن اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں موجودہ قوانین جیسے کہ پنجاب مسلم فیملی لاز ترمیم 2015، جو کہ نکاح ناموں کے کالموں کو کراس کرنے یا انہیں خالی چھوڑنے پر پابندی ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا ، شادی کے حقوق اور قوانین سے متعلق نکاح رجسٹرار کے تصورات، عقائد، تفہیم محدود ہونا اور ان میں نکاح کی درستگی کے بارے میں ناکافی سمجھ ہونا اور نکاح نامے کے فارمیٹ ، شقوں میں تضادات ، شادی کے اہم حقوق تک رسائی نہ ہونا شامل ہے ۔