نگراں وزیراعظم نے دورہ امریکہ کے دوران عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں،  جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا؛  وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی

10

اسلام آباد،28ستمبر  (اے پی پی):نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ نگراں وزیراعظم  انوار الحق کاکڑنے دورہ امریکہ کے دوران عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا، اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی آئی نہ ہی آئے گی، ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے، اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، توقع رکھتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کو روکے گی، سی پیک کو رول بیک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آئندہ سالوں میں سی پیک مزید ترقی کرے گا، دنیا کے بہت سے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں، غیرقانونی طور پر مقیم تمام ممالک کے پناہ گزینوں کو واپس جانا ہوگا، کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل سے بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔

 ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ نگراں وزیراعظم نے دورہ امریکہ کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اہم خطاب کیا، انہوں نے اس موقع پر پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے اجلاس میں بھی شرکت کی جس کا اہتمام سیکرٹری جنرل نے کیا تھا اور کئی ممالک کے سربراہان اس میں شریک ہوئے تھے، نگراں وزیراعظم نے وبائی امراض سے متعلق اہم اجلاس میں بھی شرکت کی، انہوں نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹیو کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے بھی خطاب کیا جس کا اہتمام چین نے کیا تھا۔

نگراں وزیر خارجہ نے بتایا کہ نگراں وزیراعظم نے اس دوران مختلف ملکوں کے سربراہوں سے بھی اہم ملاقاتیں کیں جن میں ایرانی صدر رئیسی کے علاوہ ازبکستان کے صدر، چین کے نائب صدر، وزیراعظم نیدرلینڈ، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر، بل گیٹس، ریوٹنٹو کے سی ای او بھی شامل ہیں، وزیراعظم نے وائس آف امریکہ، واشنگٹن پوسٹ، سی این این، بلومبرگ، نیوز ویک، ٹی آر ٹی ورلڈ اور ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت عالمی میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویوز دیئے، انہوں نے پاکستانی صحافیوں اور تھنک ٹینکس کے وفود سے بھی ملاقاتیں کیں، نگراں وزیراعظم نے یو ایس پاکستان بزنس کونسل اور کونسل آف فارن ریلیشن کے عہدیداران سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز آف نارتھ امریکہ جو پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ہے، سے بھی ملاقات کی۔

 نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ دورہ نیویارک میں میری بھی بہت زیادہ مصروفیات رہیں، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے ساتھ کوآرڈینیشن میٹنگ ہوئی جس میں او آئی سی کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی، او آئی سی کنٹیکٹ گروپ آن جموں و کشمیر جو ہمارے لئے بہت اہم گروپ ہے، کا بھی اجلاس ہوا جس میں تمام ممبر ممالک کے وزراء خارجہ نے کشمیری مسلمانوں کی بھرپور طریقے سے حمایت کی اور بھارت کی طرف سےمقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر روا رکھے گئے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر زور دیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزارتی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ سیکا، جی۔77  اور چین کا ہمارا جو گروپ ہے، کا اجلاس بھی ہوا، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اجلاس میں بھی پاکستان کی بھرپور شرکت رہی، 22 ممالک کے وزراء خارجہ کے ساتھ میری دوطرفہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں یورپ، مڈل ایسٹ کے ممالک کے وزراء خارجہ بھی شامل تھے، عرب لیگ اور جی سی سی کے سیکرٹری جنرلز کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی، ٹی آر ٹی ورلڈ، الجزیرہ، یو این کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن سمیت میڈیا کے مختلف اداروں کے ساتھ میری بھی بات چیت ہوئی، ایشیاء سوسائٹی، یو ایس پاکستان بزنس کونسل فار انڈر سٹینڈنگ جو بہت ہی اہم بزنس فورم ہے سمیت مختلف تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی میری ملاقاتیں رہیں، جلد امریکہ پاکستان بزنس کونسل کا وفد پاکستان آئے گا، اس ملاقات کا مقصد امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنا تھا، انہیں خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا، پاکستانی امریکن بزنس مینوں کے گروپ پی۔21 کے وفد سے بھی ملاقات ہوئی۔

 نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ نگراں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کیلئے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، نگراں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور اس کیلئے پاکستان نے جو اقدامات کئے ہیں ان کو اجاگر کیا۔ نگراں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال اور بہتری کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں بھی بات کی، انہوں نے فیسیلیٹیشن کونسل اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا، نگراں وزیراعظم نے کوپ 27  میں کئے گئے وعدوں کی یاد دہانی بھی کرائی، کوپ 27  میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے معاونت کا اعلان کیا گیا تھا، وزیراعظم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے فنڈ کا قیام جلد عمل میں لانے اور اس کیلئے کئے گئے 100 ارب ڈالر کے وعدوں کو پورا کرنے پر بھی زور دیا۔ نگراں وزیراعظم نے 50 فیصد فنڈ زیادہ متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک میں خرچ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

 ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں، اسرائیل کے حوالے سے جو باتیں ہو رہی ہیں پاکستان میں ایسی کوئی سوچ نہیں ہے، وزیراعظم نے اپنے خطاب اور اس کے علاوہ او آئی سی کنٹیکٹ گروپ کے اجلاس میں جو فلسطین کے مسئلہ پر تھا، میں، میں  بھی واشگاف انداز میں اس بات کو واضح کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے اوپر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے اور فلسطینیوں کو ان کا حق خود ارادیت ملنا چاہئے اور وہاں جو آباد کاری ہو رہی ہے ان کو بند کیا جائے اور فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ فلسطین 1967ء سے قبل کی سرحدی حد بندی کے مطابق ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہو اور القدس الشریف اس کا دارالخلافہ ہو، پاکستان نے اپنے اس اصولی مؤقف کا ہر جگہ بارہا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہے نہ ہو گی، ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے بلکہ اپنے قومی مفاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

 ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس دفعہ پاکستان کا جو وفد اقوام متحدہ میں نمائندگی کیلئے گیا وہ نگراں وزیراعظم، نگراں وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ پر مشتمل تھا جس نے دنیا کے سامنے پاکستان کا بھرپور طریقے سے موقف پیش کیا۔ وزیراعظم نے عالمی رہنمائوں سے دوطرفہ ملاقاتوں کے علاوہ درجنوں اور اہم ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا تمام مسلمان ممالک کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے جس پر نگراں وزیراعظم اور میں نے بھی بات کی اور یو این الائنس آف سولائزیشن جو کہ ایک مضبوط گروپ ہے، کا بھی اجلاس ہوا جس میں اس حوالے سے بات چیت کی گئی، اس میں یہ مثبت پیشرفت ہوئی کہ تمام ممالک نے اسلاموفوبیا کی لہر کی مذمت کی اور یہ طے ہوا کہ اقوام متحدہ اس حوالے سے اقدامات اٹھائے، اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات بھی کئے ہیں، 15 مارچ کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام اسلاموفوبیا کے خلاف دن کے طور پر منایا جاتا ہے، ڈنمارک نے اپنی پارلیمان میں ایک بل متعارف کرایا ہے تاکہ قرآن مجید اور مقدس صحیفوں کی بے حرمتی کو روکا جا سکے، دیگر ممالک بھی اس حوالے سے قانون سازی کرنے پر غور کر رہے ہیں، او آئی سی بھی اپنے آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے اقدامات اٹھائے گی جس سے اسلاموفوبیا کے خلاف اقدامات میں تیزی آئے گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی تنہائی کا شکار نہیں ہے، جن 22 وزراء خارجہ سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے چند ایک سے میں نے ملاقات کی درخواست کی جبکہ اکثر وزراء خارجہ نے خود مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور او آئی سی اور اقوام متحدہ میں ہمارا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ نگراں وزیر خارجہ نے ایک اور سوال کے جواب میں واضح کیا کہ فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے موقف اور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔

 افغانستان سے متعلق سوال کے جواب میں نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر ہمیں بہت تشویش ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوش آئند امر یہ ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے جس میں ہم نے زور دیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر جو حملے ہو رہے ہیں اور وہاں جو مختلف دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی ہے، ان کو روکنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے، چند ماہ قبل چین پاکستان افغانستان سہ فریقی اجلاس کے بعد مشترکہ بیان میں بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال بند ہوگا، ہم توقع رکھتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت اپنے وعدے کی پاسداری کرے گی اور آئندہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

روس سے تیل اور دیگر اشیاء کی خریداری کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک کے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں، پاکستان نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو دوسرے ممالک سے مختلف ہو، پاکستان نے روس سے خریداری کرکے کسی بین الاقوامی قانون یا پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔

 سی پیک کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کی ترقی کا اہم جزو ہے، اس کو رول بیک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جس میں زراعت، ریلویز، زراعت کی ترقی، تکنیکی اور آئی ٹی کے شعبے میں تعاون سمیت بہت سی چیزیں شامل ہیں، آئندہ سالوں میں پاکستان چین اقتصادی راہداری کو مزید ترقی ملے گی، اس میں کسی کو کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت بہت سے ممالک سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں، امریکی سرمایہ کار بھی اس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کا وفد جلد پاکستان آئے گا، زراعت، آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں بہت سی سرمایہ کاری آئے گی، 2.5 ارب ڈالر کی حالیہ برآمدات آئندہ سالوں میں 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ معدنیات و کان کنی میں سرمایہ کاری میں بھی عرب اور خلیجی ممالک دلچسپی لے رہے ہیں، توانائی اور دفاعی پیداوار کے شعبے میں بھی جوائنٹ وینچرز ہوں گے، بہت سے ایم او یوز پر کام ہو رہا ہے جن پر دستخطوں کے حوالے سے وفود جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت کا پاکستان میں بہت احترام کیا جاتا ہے، جب بھی سعودی قیادت پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کیلئے تمام اقدامات اٹھائے گا، اس سلسلہ میں ہم اپنے تمام آپشنز کو بروئے کار لائیں گے۔

 ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسی صرف افغان پناہ گزینوں سے متعلق نہیں ہے، اس پالیسی میں تمام ممالک کے غیر قانونی پناہ گزین شامل ہیں، کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام غیر قانونی پناہ گزین اپنے ممالک میں واپس جائیں، دنیا میں کوئی بھی ملک خواہ یورپی ہو یا کوئی اور، اگر آپ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں تو آپ کو کوئی بھی وہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، پاکستان نے بھی یہ پالیسی اختیار کی ہے اور ہم اس کے اوپر سختی سے عملدرآمد کریں گے، جو افغان پناہ گزین رجسٹرڈ اور قانونی طور پر مقیم ہیں ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن جو غیر قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں انہیں واپس اپنے ملکوں کو جانا ہو گا۔

 کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا قتل بدقسمتی ہے، پاکستان برسوں سے کہتا رہا ہے کہ بھارت اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے، خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا جنوبی ایشیائی ممالک میں، یہ واقعہ پاکستان کے مؤقف کو درست ثابت کرتا ہے، بھارت بہت عرصے سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں اس قسم کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور جتنے بھی دہشت گرد گروپس ہیں انہیں سپورٹ کرتا ہے، ہم نے بین الاقوامی برادری کو ایک ڈوزیئر بھی پیش کیا تھا جس میں بھارتی سرگرمیوں سے دنیا کو آگاہ کیا تھا، اب بھارت نے اسے ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے طور پر اپنا لیا ہے اور اقوام متحدہ میں تمام ممالک جن کے ساتھ ہمارا رابطہ ہوا، نے اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ معاملہ اتنی جلدی حل ہونے والا نہیں ہے، ہندوستان نے اپنے چہرے پر جو ایک جعلی نقاب چڑھا رکھا تھا وہ اتر گیا ہے اور بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے، کئی ممالک نے اس واقعہ کی بین الاقوامی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے، بھارت ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دے سکا ہے۔

 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات کا خطے پر بھی اثر پڑے گا، خطے کے تمام ممالک اس سے خوش ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ ایک عرصہ سے تعطل کا شکار ہے، ہم اس کی رکاوٹوں کو جلدازجلد دور کرنے کے خواہاں ہیں، اس حوالے سے ایران کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے۔