سمندروں کی حالت میں مسلسل خرابی کرہ ارض کے  وسیع ماحولیاتی نظام کے لیے سنگین خطرہ ہے؛ سفیر عثمان اقبال جدون

36

نیویارک ،6دسمبر (اے پی پی):پاکستان نے  دنیا کے سمندروں کی حالت زار میں تیزی سے  انحطاط  پذیری کے خلاف خبردار کرتے ہوئے  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور ماحولیاتی انحطاط، نقصان دہ کیمیکلز اور سمندری آلودگی جیسے دیگر  عوامل کو کم کرنے کے لیے  فوری  اقدامات  اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

  اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل نمائندے  سفیر محمد عثمان اقبال جدون نے اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی  کو بتایا کہ ہمارے سمندر شدید دباؤ میں ہیں  جو کہ بہت سے سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔”سمندر اور سمندر کا قانون” پر ایک مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ سمندروں کی حالت  زار میں مسلسل خرابی   واقع ہو رہی ہے  جو کرہ ارض کے سب سے زیادہ وسیع ماحولیاتی نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ سمندری صحت کی گرتی ہوئی حالت صرف ماحولیاتی تشویش نہیں ہے بلکہ ایک سماجی اقتصادی مسئلہ ہے، جس سے دنیا بھر میں اربوں افراد کی روزی روٹی متاثر ہو رہی ہے ۔ دن بھر کی طویل  بحث  و مباحثہ کے دوران   رکن ممالک نے سمندروں اور ان کے وسائل پر مجموعی دباؤ سے نمٹنے کے لیے اجتماعی عزم  کا مطالبہ کیا  جو ان پر انحصار کرنے والے لوگوں کے لیے براہ راست خطرات کا باعث ہیں  جیسا کہ 193 رکنی اسمبلی نےاپنی  دو قراردادوں میں ذکر کیا ہے۔

جنرل اسمبلی میں قرارداد “سمندر اور سمندر کا قانون”کے حق میں 140 ووٹ جبکہ  مخالفت میں ایک ووٹ آیا  ، 3  ممالک   (کولمبیا، ایل سلواڈور، شام)غیر  حاضر رہے،جنرل  اسمبلی نے اقوام متحدہ کے کنونشن کے متفقہ کردار کی توثیق کی۔اسمبلی نے بین الاقوامی قانون کے مطابق  سمندری سلامتی کو لاحق خطرات  بشمول جہاز رانی، آف شور تنصیبات، آبدوز کیبلز اور پائپ لائنز اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کے خلاف بحری قزاقی اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے نمٹنے میں بین الاقوامی تعاون کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔

سفیر عثمان اقبال جدون نے  مزید کہا کہ     نئی میری ٹائم ٹیکنالوجی کے ذریعےڈیٹا اکٹھا کرنے میں اضافہ ممکن ہوا ہے،قرار داد پر  اس کی اصل روح پر عمل کرتے ہوئے  سمندری سائنس کو نمایاں طور پر بہتر بنا یا جا سکتا ہے اور اقوام متحدہ کی دہائی برائے اوقیانوس سائنس برائے پائیدار ترقی (2021-2030) کے مقاصد میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ شمال جنوب ڈیجیٹل تقسیم بہت سی ترقی پذیر ریاستوں کو عمل درآمد کے ذرائع کو مضبوط بنانے اور سمندری پائیداری کے لیے شراکت داری کو فروغ دینے  کو  چیلنج کرتی ہے۔ یہی بات پائیدار سمندر پر مبنی معیشتوں کی ترقی کے لیے ناکافی دستیابی اور فنانسنگ اور سرمایہ کاری تک رسائی کے لیے بھی سامنے آتی  ہے۔

پاکستانی ایلچی نے کہا کہ صلاحیت سازی کے اقدامات بشمول میرین ٹیکنالوجی کی منتقلی، اس لیے ایسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سمندروں کے تحفظ اور پائیدار استعمال سے متعلق ایس ڈی جی -14 سمیت 2030 کے ایجنڈے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی (آئی ایس اے) کے بارے میں  سفیر جدون نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ علاقے میں کسی بھی جگہ کان کنی شروع ہونے سے پہلے  ایک مضبوط اور جامع نظام وضع کیا جانا چاہیے، جس میں منصفانہ فوائد کی تقسیم کے قوانین بھی شامل ہیں۔