اسلام آباد،23 دسمبر (اے پی پی ): ریجنل الیکشن کمشنر سردار نظر عباس نے کہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں کا تعین پارلیمنٹ کا استحقاق ہے،آئین کے مطابق مختص کی گئی سیٹوں کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کی ہیں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈائریکٹر الیکشن کمیشن آصف یاسین کے ہمراہ قومی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کی ویڈیو نیوز سروس سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں مکمل کر کے 30 نومبر کو حتمی فہرست جاری کی تھی، جس کے مطابق پاکستان کی اگلی قومی اسمبلی 342 کے بجائے 336 ارکان پر مشتمل ہو گی،اسی طرح ملک بھر سے قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے 266 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔
خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں کم کرنے کے حوالے سے سوال کاُجواب دیتے ہوئے ڈائریکٹر الیکشن کمیشن آصف یاسین کا کہنا تھا اس طرح کی بات مکمل طور پر حقائق کے منافی اور مضحکہ خیز ہے۔جس سے عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا 25ویں آئینی ترمیم 2018 کے تحت سابق فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے فاٹا کی 12 قومی اسمبلی کی نشستوں کو ختم کر کےخیبر پختونخواکی قومی اسمبلی میں 6 نشستوں کا اضافہ کیا گیا، چنانچہ یہ بڑھ کر 39 سے 45 ہو گئی ہیں ۔اسی طرح خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں 16 جنرل سیٹوں کا اضافہ کر کے 99 سے 115 کر دی گئیں ہیں ۔
حلقہ بندیوں کی اشاعت اور اعتراضات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر الیکشن کمیشن آصف یاسین کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں پر 1300 سے زائد اعتراضات موصول ہوئے جن میں اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے کُل 672 اعتراضات جمع ہوئے، اس کے بعد خیبرپختونخوا میں 293، سندھ میں 228، بلوچستان میں 124 اور اسلام آباد میں 7 اعتراضات جمع ہوئے۔
آصف یاسین نے کہا الیکشن کمیشن نے 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کی روشنی میں ملک بھر میں انتخابی اضلاع کو دوبارہ ترتیب دینے کے بعد 27 ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں شائع کی تھیں اور رجسٹرڈ ووٹرز سے اعتراضات جمع کرانے کو کہا تھا۔الیکشن کمیشن نے اعتراضات جمع کرانے کے لیے 27 اکتوبر کی آخری تاریخ مقرر کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ ان اعتراضات پر متعلقہ فریقین کے مؤقف سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔اعتراضات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے 2 بینچ تشکیل دئیے تھے جس کا کام اعتراضات پر سماعت کرنا تھا۔