لاہور، 5 جنوری (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے آج ایڈوائزری کمیٹی (سنٹرل) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلوں سے جہاں گذشتہ دو برس کےدوران ہزاروں ٹیکس دہندگان کو بارہ تیرہ ارب روپے کے ریفنڈز واپس ملے وہیں ایف ٹی او کے لینڈ مارک فیصلوں سے سٹیل، شوگر اور لینڈ ڈویلپمنٹ سمیت متعدد دیگر شعبوں میں ٹیکس چوری کی روک تھام میں بہت مدد ملی۔ صرف ایک تحقیق کے ذریعے شوگر سیکٹر میں کم و پیش 60 ہزار نئے ٹیکس دہندگان کو تلاش کرنے میں مدد ملی۔ اس از خود نوٹس سے چینی کی قیمتوں میں بھی استحکام پیدا ہوا۔ تنخواہ داروں اور پینشرز کیلئے سادہ اور آسان ریٹرن فارم تجویز کرنے سے لاکھوں تنخواہ دار اور پینشرز مستفیض ہوئے جبکہ نئے ٹیکس دہندگان بھی سامنے آ رہے ہیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے بھی ایف ٹی او سے رجوع کیا جن میں پی ٹی اے، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، پنجاب رورل سپورٹ پروگرام، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی قابل ذکر ہیں۔ یہ ایف ٹی او کی بہتر کارکردگی اور ان کے اعتماد کا مظہر ہے۔ جائیدادوں کے شعبے میں از خود نوٹس پر تحقیق کے ذریعے صوبائی انتظامیہ اور ایف بی آر کے افسران میں رابطے کی کمی اور بعض ایس آر اوز میں ابہام سے ٹیکسوں/ محصولات میں کمی کا پتہ چلا۔ یہ خامی بھی دور کرا دی گئی ہے۔ اس سے عوام الناس اور حکومت، دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ فیلڈ فارمیشنز کو حاصل لامحدود اختیارات کے خاتمے سے ٹیکس اہداف بڑھنے اور عوام کے ساتھ من مانی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
ایک اور اہم از خود نوٹس کے جواب میں ایف بی آر نے ایف ٹی او کو بتایا کہ ملک میں کم و پیش ایک لاکھ سمگل شدہ کاریں موجود ہیں، تاہم تحقیقات کے دوران یہ تعداد اس سے زیادہ معلوم ہوئی۔ ایف ٹی او کے فیصلے کے بعد کاروں کی سمگلنگ کی روک تھام میں مدد ملی۔ سمگل شدہ کاروں کی صحیح تعداد کا پتہ چلانے اور ان کی روک تھام کیلئے ایک بار پھر از خود نوٹس کے ذریعے کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی جا چکی ہے۔ ماضی میں بے نامی زون کو اچانک توڑنے سے ٹیکس چوری سے متعلق اہم مواد ضائع ہو گیا تھا۔ بے نامی زون سے متعلق متعدد فیصلوں کے بعد، اب ایف بی آر نے ٹیکس چوری کی روک تھام کیلئے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ ایک اور اہم مثال لاہور میں واقع پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس کے اکاؤنٹ سے تقریباً 66کروڑ روپے بطور ٹیکس کاٹ لئے گئے تھے۔
انسٹیٹیوٹ کے ڈین ڈاکٹر فیصل ڈار کی شکایت پر ایف ٹی او کے دفتر میں کارروائی شروع ہونے کے بعد یہ فنڈز واپس کر دیئے گئے۔ ایک اور اہم فیصلہ سندھ میں رکے ہوئے ریفنڈز سے متعلق ہے۔ ٹیکسٹائل کے ایک شعبے سے متعلق سرمایہ کاروں کو اپنی خدمات کی فراہمی پر ہر علاقے میں الگ الگ ریٹرن فائل کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ سندھ اور پنجاب میں کام کر رہا ہے تو اسے ان دونوں صوبوں میں الگ الگ ریٹرن داخل کرنا پڑتی ہے لیکن ہم نے جلد از جلد سنگل ریٹرن اور سنگل ویب پورٹل بنانے کی ہدایت دی ہے۔ مجوزہ ویب پورٹل میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شامل کرنے کی سفارش بھی ہمارے فیصلے کا حصہ ہے۔ یہ کام جلد مکمل ہونے سے ہزاروں ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچے گا جبکہ اس سے ایف بی آر کے ملازمین پر کام کا غیر ضروری بوجھ بھی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ، نئے ٹیکس دہندگان کی تلاش اور ٹیکس نظام کی ڈیجٹلائزیشن بھی اہم کام ہیں لیکن ادارے کو اس اس سلسلے میں بڑی تعداد میں شکایات ملیں۔ فائلر، اپنی گڈز ڈکلریشن میں 60دنوں کے اندر اندر اصلاح / تبدیلی کرنے کا مجاز ہے لیکن قانون سے عدم واقفیت کے باعث ٹیکس دہندگان اپنی غلطیوں کو دور کرنے سے قاصر رہے، جبکہ کچھ افسران نے بھی گڈز ڈکلیریشن میں تبدیلی کرنے کی سہولت سے محروم رکھا۔ ایف ٹی او کی مداخلت سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ریلیف ملا۔
انہوں نےکہا کہ کسٹم کے گودام کنسائمنٹس سے بھرے پڑے تھے۔ ایک از خود نوٹس پر کارروائی سے یہ تعداد ساڑھے 8 ہزار سے زائد نکلی۔ بعض کنسائمنٹس 30 , 40 برس پرانی تھیں۔ ہمارے فیصلے سے کسٹم کے گودام خالی ہو گئے اور 8، 9 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع ہوئے۔ کسٹم کے گوداموں سے ٹیکس دہندگان کی رقومات کی چوری کی شکایات بھی ملیں۔ ایک از خود نوٹس پر کارروائی سے درجنوں کروڑ روپے کی قیمتی مصنوعات/ غیرملکی زرمبادلہ کی چوری کا انکشاف ہوا۔ اس پر کارروائی ابھی جاری ہے۔