اسلام آباد،4 جنوری (اے پی پی ): سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کا اجلاس جمعرات کو سینیٹر ہلال الرحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں تباہ شدہ عوامی گھروں کی ادائیگی کے لیے ریلیف اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا کو اے آئی پی فنڈز میں سے جاری کیے گئے 1.5 بلین روپے کا معاملہ اٹھایا۔
اس موقع پر حکام کا کہنا تھا کہ ترقیاتی اکاؤنٹ سے ڈیڑھ ارب روپے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کیے جائیں کیونکہ جنوبی وزیرستان کیلئے فی الحال کوئی ترقیاتی سکیم نہیں۔ وزارت خزانہ نے آگاہ کیا کہ متعدد درخواستیں کی گئیں تاہم پی اینڈ ڈی نے کوئی جواب نہیں دیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈویلپمنٹ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں 1.5 بلین روپے منتقل کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ کمیٹی نے وزارت خزانہ کو معاملے کا ممکنہ حل تلاش کرنے کی سفارش کی۔سینیٹ کمیٹی نے ضلع اورکزئی سے 23 اور ضلع باجوڑ سے 8 خاصہ داروں کی شمولیت کے معاملے پر غور کیا۔ حکام نے بتایا کہ ضلع اورکزئی کے 23 خاصہ داروں کو شامل کیا جا چکا ہے تاہم ضلع باجوڑ کے 8 خاصہ داروں کو تاحال شامل نہیں کیا جا سکا کیونکہ وہ جذب کے عمل سے پہلے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔
سینیٹر ہدایت اللہ نے ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے 4 اپریل 2019 کو خاصہ داروں اور لیویز کو جذب کرنے کا حکم دیا لیکن اہلکار جولائی 2019 میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پی کے، سید امتیاز ایچ شاہ نے وضاحت کی کہ اہلکاروں کو جذب کرنے کا ایکٹ ستمبر 2019 ءمیں نافذ کیا گیا تھا اور ایکٹ کے نفاذ سے قبل ریٹائر ہونے والے اہلکار جذب کے دائرے میں نہیں آسکتے ہیں۔
کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس ایکٹ پر قانونی رائے حاصل کی جائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا 8 خاصہ داروں کو جذب کرنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں۔جنوبی وزیرستان سے 91 خاصہ داروں کو جذب کرنے سے متعلق کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے حکام نے بتایا کہ تصدیق کرنے والی کمیٹی کی جانب سے جذب کی سفارش نہیں کی گئی تھی کیونکہ اہلکار اپنے دعوﺅں کے خلاف مطلوبہ دستاویزات جمع کرانے میں ناکام رہے۔
کمیٹی نے محکمہ پولیس خیبرپختونخوا کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر دوبارہ غور کرے اور آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرے۔مزید برآں کمیٹی کو ضم شدہ ایریاز گورننس پروگرام ( ایم اے جی پی ٹو) کے مقاصد سے آگاہ کیا گیا۔حکام نے بتایا کہ 44 ملین ڈالر کا یہ پروگرام یو این ڈی پی کی طرف سے فنڈز فراہم کرتا ہے اور اس میں بنیادی طور پر بارڈر گورننس، مقامی گورننس کی حمایت اور بنیادی خدمات کی فراہمی پر توجہ دی جاتی ہے۔ پروگرام کے پی کے کے تعاون کے بغیر براہ راست یو این ڈی پی کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے ۔
سینیٹر ثانیہ نشتر نے سکیم کی زمینی تفصیلات کے بارے میں دریافت کیا تاہم حکام کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہے۔ سینیٹر ہلال الرحمان نے ریمارکس دیے کہ یہ سکیم واضح طور پر ایک فراڈ ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ اور محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کو اس سکیم کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی اس سکیم کی شناخت کا کوئی طریقہ ہے۔ کمیٹی نے اراکین کے تحفظات دور کرنے کے لیے اس معاملے پر ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔مزید برآں کمیٹی نے GIS سسٹم کے لازمی استعمال، لازمی اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹل پروکیورمنٹ اور بائیو میٹرک تصدیقی نظام کی تنصیب کے حوالے سے ذیلی کمیٹی کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ کمیٹی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور خیبرپختونخوا حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ڈیجیٹل پروکیورمنٹ کے استعمال کے لیے کوششیں کرے کیونکہ یہ گڈ گورننس کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اجلاس میں سینیٹر دوست محمد خان، سینیٹر ثانیہ نشتر، سینیٹر ہدایت اللہ، سیکرٹری سیفران پرویز احمد جونیجو، ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پی کے سید امتیاز ایچ شاہ اور متعلقہ محکموں کے دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔