سرگودھا، 22 فروری (اے پی پی): سرگودھا شہر کی بنیاد ایک انگریز خاتون لیڈی ٹروپرنے22فروری 1903 میں رکھی۔اس شہر میں1860میں جہاں آج کل گول مسجد ہے وہاں ایک تالاب ہوتا تھا، اس گول تالاب کامالک ایک ہندو سادھو تھا جس کا نام گودھا تھا۔ چونکہ تالاب کو فارسی زبان میں سر کہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس نوآباد شہر کا نام بھی فارسی کے لفظ سر اور گودھا کو ملا کر سرگودھا رکھا گیا۔پاکستان بننے کے بعد بھی اس جگہ کو گول کھوہ کہاجاتا رہا۔
یہ پاکستان کا پہلا شہر ہے جس کو ماسٹر پلان کے تحت آباد کیا گیا، اس کے بعد دو شہر فیصل آباد اور اسلام آباد ماسٹرپلان کے تحت آباد ہوئے۔اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظریہاں بہت جلد آبادی بڑھتی گئی۔ اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز حکومت نے یہاں پر ایک عسکری سطح کاایئر پورٹ اور ایک فوجی چھاؤنی تعمیر کی جبکہ 1949 میں سرگودھا کو تحصیل کا درجہ دیا گیا جو ترقی کرتے کرتے بعد میں ضلع اور پھر1960میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا۔ضلع سرگودھا کے مکینوں کی آمدنی کا زیادہ ترانحصار زرعی پیداوار پر ہے جبکہ کنو اور گریپ فروٹ کی پیداوار میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ چاول کی پیداوار میں 11واں جبکہ گنے کی پیداوار میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے یہاں پر مچھلی، گائے،بکریوں اور بھینسوں کے فارمزقائم ہیں۔ اپنی زرعی پیداوار کی وجہ سے سرگودھا کو کیلی فورنیا آف پاکستان بھی کہا جاتاہے۔اس شہر کی خوبصورتی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بازاروں میں ہر چیزکے بازار الگ الگ ہیں کپڑے کتابیں جوتے برتن زیورات رنگ روغن لکڑی سبزی فروٹ اور لوہے کے سامان کی مارکیٹیں الگ الگ ہیں۔ یہاں پر ایک انٹرنیشنل اسٹیڈیم بھی موجود ہے۔ اہل سرگودھا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1965 کی جنگ میں دشمن کی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوانے پر نشان استقلال سے نوازا گیا۔پاکستان میں یہ اعزاز سرگودھا سیالکوٹ اورلاہورکے علاوہ کسی شہر کو حاصل نہیں۔ 1965کی پاک بھارت جنگ میں شاندار کردار اور پاک فوج سے محبت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ چوکوں کے اکثر نام عسکری ہیں جیسے شاہین چوک، غور ی چوک،بم چوک، ٹینک چوک اور توپ چوک وغیرہ۔