سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت منعقد ہوا

10

اسلام آباد،20فروری  (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس منگل کو یہاں چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں ان پاکستانی شہریوں کے معاملے پر غور کیا گیا جو بیرون ملک قید ، نظر بند ، سزا یافتہ ہیں یا ان کے کیس زیر سماعت ہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام نے اجلاس کو بتایا کہ اس وقت غیر ملکی جیلوں میں کل 23,456 قیدی/ زیر حراست ہیں  اور ان میں سے 15،587 سزایافتہ ہیں اور 7,869 کے معاملات زیر سماعت ہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے ان قیدیوں کو ریلیف فراہم کرنے یا وطن واپسی کے پروگرام کے قیام کے لیے وزارت داخلہ کے اقدامات کے بارے میں دریافت کیا۔ سینیٹر ولید اقبال نے یکساں قونصلر پروٹیکشن پالیسی بارے بات کرتے اجلاس کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس(موجودہ جج سپریم کورٹ) سید منصور علی شاہ نے 2017 میں عاصمہ شفیع کیس میں اپنے فیصلے میں یکساں قونصلر پروٹیکشن پالیسی بنانے کی ہدایت کی تھی ۔

 کمیٹی نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ اگلے 90 دنوں کے اندر یکساں قونصلر پروٹیکشن پالیسی بنائے اور اس کے نفاذ کے لیے حکومت سے منظوری حاصل کرے۔ اسی موضوع پر وزارت داخلہ کے نمائندوں نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ پاکستان نے گیارہ ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کیے ہیں جن میں سے دس مکمل طور پر موثر ہیں اور ایک پر کارروائی جاری ہے کیونکہ اس کی توثیق غیر ملکی حکومت سے ہونا باقی ہے۔ ان گیارہ ممالک کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدوں کی کاپیاں بھی کمیٹی کے سامنے پیش کی گئیں۔

 کمیٹی نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ تمام موجودہ اور مستقبل کے قیدیوں کی منتقلی کے معاہدوں کو وزارت داخلہ، انسانی حقوق، سمندر پار پاکستانیوں اور قانون و انصاف کی ویب سائٹس پر رکھا جائے۔ قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کی چیئرپرسن نے اجلاس کو اقوام متحدہ کے منظور شدہ “بینکاک رولز” کے پاکستان بھر میں نفاذ کی صورتحال پر بریفنگ دی جس میں خواتین قیدیوں اور زیر حراست افراد کے ساتھ سلوک شامل ہے۔ 29 دسمبر 2023 کو ہونے والے گذشتہ ​​اجلاس میں کمیٹی نے مذکورہ موضوع پر حقائق اور اعداد و شمار بھی طلب کیے تھے۔ این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے بتایا کہ اس وقت ملک میں 13,065 خواتین قید ہیں جن میں سے 12,258 خواتین کے معاملات زیر سماعت ہیں۔ 767 سزا یافتہ ہیں اور 40 خواتین سزائے موت پر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں کل قیدیوں میں سے 60 فیصد قیدیوں کے کیسز زیر سماعت ہیں۔ مزید برآں این سی ایس ڈبلیو نے ہفتہ وار خاندانی ملاقاتوں کا اہتمام کرنے اور خواتین قیدیوں کے لیے بہتر سہولیات کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کمیٹی کی توجہ طاہرہ بتول کیس (2022) اور جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی طرف دلائی۔

  سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے اجلاس کو پاکستان کی آئندہ معیادی رپورٹ  کے بارے میں بریفنگ دی جو مارچ 2024 میں پیش کی جانی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آئی سی سی پی آر کا مقصد شہری اور سیاسی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے ۔وزارت انسانی حقوق نے متعلقہ معلومات حاصل کرنے کے لیے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیے ہیں اور ایک تفصیلی رپورٹ اگلے ماہ آئی سی سی پی آر کمیٹی کو دینے کیلئے وزارت خارجہ کو بھیج دی جائے گی۔چیئرمین کمیٹی نے سرگودھا کے رہائشی محمد الیاس گھمن کا معاملہ اٹھایا جن پر گزشتہ 22 سال سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کے تحت پابندیاں عائد ہیں اور اس وقت ترکی میں مقیم ہیں، گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں اور اپنے آبائی وطن میں دفن ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سفارش پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے افراد پر فورتھ شیڈول کی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاملے کے حل کے لیے پنجاب کی صوبائی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور مقررہ وقت پر تعمیل رپورٹ پیش کرنے کی سفارش کی۔

اجلاس میں خواتین کے حقوق کی ایک این جی او پوٹھوہار آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈووکیسی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو دی گئی ایک عوامی پٹیشن کا معاملہ بھی زیر غور آیا جسے گزشتہ ہفتے کمیٹی کے چیئرمین کو بھجوایا گیا تھا۔ اس پٹیشن میں لڑکیوں کی شادی کی عمر پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور آئی سی ٹی میں 18 سال کرنے کا قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

 چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار نے اجلاس کو بتایا کہ اسی موضوع سے متعلق ایک جامع قومی سطح کا بل پچھلی حکومت میں این سی ایس ڈبلیو نے پیش کیا تھا اور اس وقت قومی اسمبلی میں پڑا ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ملک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔کمیٹی نے متفقہ طور پر این سی ایس ڈبلیو کو سفارش کی کہ وہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد اس معاملے کو اگلی وفاقی حکومت کے ساتھ دوبارہ اٹھائے تاکہ مطلوبہ قانون سازی نہ صرف پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور آئی سی ٹی بلکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی ہو۔ اجلاس میں سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر محمد طاہر بزنجو، سینیٹر محمد ہمایوں مہمند، سینیٹر فلک ناز، سینیٹر سید وقار مہدی، نگران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق خلیل جارج، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار نے شرکت کی جبکہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔