گندم درآمد معاملہ میں ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت نہیں کی جاسکتی،سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ

6

 

کوئٹہ۔ 07 مئی (اے پی پی):سابق نگران وزیر اعظم  سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ گندم معاملے پر کرپشن کی باتیں بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں، قومی درآمدات پالیسی اور رائج الوقت قوانین سے عدم واقفیت کی وجہ سے میڈیا پر قیاس آرائیوں نے جنم لیا،حقائق عوام سے مخفی ہیں، گندم درآمد ایک قانونی طریقہ کار کے تحت ہوئی جس میں ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت نہیں کی جاسکتی، گندم خریداری کا ایس آر او پی ٹی آئی کے دور میں جاری ہوا تھا، نگران حکومت نے کوئی اضافی اجازت نامہ  جاری نہیں کیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سابق نگران وزیر اعظم نے گندم خریداری معاملے کو میڈیا میں غلط رنگ دینے اور نگران حکومت کے میڈیا ٹرائل پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ کم علمی اور حکومتی معاملات میں رائج الوقت قوانین اور طریقہ کار سے عدم واقفیت کی وجہ سے لوگوں تک حقائق نہیں پہنچ پائے اور نگران حکومت کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوا۔ گندم در آمد کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ملکی قانون اور ایس آر او کی تحت ہوتی ہے جس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن ہوتا ہے ٹیکس کی کٹوتی سمیت تمام امور زیر بحث لائے جاتے ہیں جس کے بعد باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت گندم درآمد کی جاتی ہے۔

 انہوں کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان میں 27 لاکھ میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے اور ہر سال مجموعی طور پر تین سے چار لاکھ میٹرک ٹن کا شارٹ فال ہوتا ہے جس کو پورا کرنے کے لئے گندم در آمد کی جاتی ہے اور اس کا باقاعدہ قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد تمام صوبے اپنی ضرورت کی گندم کی تفصیلات فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجتے ہیں۔ حکومت ای سی سی کی سفارشات اور صوبوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے فیصلہ لیتی ہے۔ سابق نگران حکومت کے دور میں بھی دستیاب ڈیٹا اور ایس آر او کے تحت گندم کی درآمد کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو صرف قانونی سہولت فراہم کی گئی تھی تاکہ عام آدمی کی گندم کی ضرورت پوری کی جائے اور ملک میں گندم کے بحران سے بچا جا سکے، گندم خریداری  کا ایس آر او پی ٹی آئی کی حکومت میں بنایا گیا تھا۔

 انہوں نے کہا کہ یہ کوئی منشیات نہیں تھی کہ جس میں 85 ارب یا 200 ارب روپے کمیشن لیا گیا ، قانونی عمل کو غیر قانونی بنایا گیااور بے بنیاد میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ہے۔ مختلف چینلز پر میڈیا کے دوست اپنی ذہنی اختراع کے مطابق ٹکرز مجھ سے منسوب کر کے چلا تے ہیں جو صحافت کے اصولوں کے منافی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا میں ملکی پیداوار اور اسکے شارٹ فال کو دور کرنے کے لئے صحت مند بحث ہونی چاہے نا کہ قانونی معاملہ کو غیر قانونی طور پر پیش کرکے ابہام پیدا کیا جائے۔