قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2024-25 کے تقریباً 18 ہزار 887 ارب  روپے کے وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی

24

اسلام آباد۔28جون  (اے پی پی):قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2024-25 کے تقریباً 18 ہزار 887 ارب  روپے کے وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی۔ گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 جبکہ گریڈ 17 سے لیکر گریڈ 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد جبکہ پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کی منظوری سے فروری 2024 کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے، آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں معیشت میں نجی شعبہ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کتابوں، نیوز پرنٹ، امراض قلب کیلئے سرجیکل آلات، سسٹنٹس اور دیگر طبی آلات و اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی گئی ہے، برآمدات کیلئے مقامی خریداری پر بھی ٹیکس میں چھوٹ دیدی گئی ہے، اساتذہ، تحقیق، زرعی شعبے میں استعمال ہونے والے مداخل پر ٹیکس استثنیٰ برقرار رہیں گے۔

سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم 1500 ارب روپے رکھا گیا ہے، سبسڈیز کا حجم 1363 ارب روپے اور مجموعی گرانٹس کا حجم 1777 ارب روپے ہو گیا، کم سے کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے، ٹیکس محصولات کا ہدف12970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے، دفاعی ضروریات کیلئے 2122 ارب روپے کا بجٹ مختص کر دیا گیا جبکہ اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رکھنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔

نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ملک کے مجموعی وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیلئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع قومی مالیاتی معاہدہ کی  تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے۔

نئےملازمین کیلئے کنٹربیوٹری پنشن سکیم متعارف کرانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس میں حکومت کا حصہ ہر ماہ ادا ہو گا، اس سے مستقبل کے ملازمین کی پنشن ان کی ملازمت کے آغاز سے ہی مکمل فنڈڈ ہو گی، اس کے علاوہ پنشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

 معاشرے کے معاشی طورپر کمزورطبقات کیلئے بی آئی ایس پی کے بجٹ میں 27 فیصد اضافے کیاگیاہے ، جس کے بعدبی آئی ایس پی کابجٹ 593 ارب روپے ہوگیا ، کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کی جائے گی، تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مالی خود مختاری کا ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغاز  ہوگا ۔

وزیر اعظم کے اعلان کردہ کسان پیکیج کے تحت سکیم کیلئے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، مہمند ڈیم کیلئے 45، دیامیر بھاشا کیلئے 40، چشمہ رائیٹ بینک کینال کیلئے 18 ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کیلئے 10 ارب روپے مختص کردئیے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے  وفاقی بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی شعبہ پر خصوصی توجہ  دی گئی ہے ، آئی ٹی سیکٹر کیلئے 79 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈیجیٹلائزیشن اور اصلاحات کیلئے 7 ارب روپے  ، کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے 8 ارب روپے، ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اسلام آباد کیلئے 11 ارب روپے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

 اسلام آباد کے 167 سرکاری سکولوں میں بنیادی ڈھانچہ اورتعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کی گئی ہے ، وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جائیگا  ۔

  وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد کے ہسپتالوں کوجدید بنانے کرنے کے لیے  جامع پلان مرتب کیا جائے گا تاکہ اسلام آباد، راولپنڈی، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گردو نواح کے علاقوں کی عوام کو علاج معالجہ کی جدید سہولیات فراہم کی جاسکیں۔خاص طور پر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور قائداعظم ہیلتھ ٹاور کے نام سے   ایک  نیا منصوبہ شروع کیا جائیگا۔ ٹیکس کی بنیاد کووسیع کر کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائیگا، غیر دستاویزی معیشت کاخاتمہ کیا جائیگا۔