ملکی سطح پر ساتویں زرعت شماری 2024 ترتیب دی جا رہی ہے جس سے غذائی استحکام کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی؛وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں

18

 

فیصل آباد،  05  جون (اے پی پی):زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا ہے کہ  ملکی سطح پر ساتویں زرعت شماری 2024 ترتیب دی جا رہی ہے جس میں زراعت، لائیوسٹاک اور زرعی مشینری کی مکمل شماریات مرتب کرنے سے بہترین پالیسی کا حصول ممکن ہو گا اور غذائی استحکام کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

ان خیالات کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس اور زرعی یونیورسٹی کے اشتراک سے زراعت شماری ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے زراعت شماری کے حوالے سے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ صحیح شماریات کسی بھی شعبے کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ لائیوسٹاک ڈیٹا حقائق کے برعکس ہے اور یہ زرعت شماری اس ضمن میں حقیقت پر مبنی اعدادوشمار فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

ڈاکٹر اقرار احمد خاں کا کہنا تھا کہ زراعت شماری ایک احسن قدم ہے جس سے ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے حقائق پر مبنی اعدادوشمار کی فراہمی سے ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔

قبل ازیں سیکرٹری لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ محمد مسعود انور نے لائیوسٹاک اعدادوشمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی لائیوسٹاک کی شرح اضافہ 2.7فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں غذائیت کی کمی سے متاثر ہونے والے افراد 40فیصد ہیں جو کہ شرح اضافہ سے مماثلت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دودھ اور گوشت کی پیداوار کے حوالے سے اعدادوشمار تصحیح کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساتویں زراعت شماری حقائق پر مبنی اعدادوشمار کی دستیابی کے لئے ایک اہم پیش رفت ہے جس سے نچلی سطح پر مسائل کے حل کے لئے بہترین پالیسی مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔

 انہوں نے کہا کہ لائیوسٹاک میں صرف جانوروں ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر عوامل بشمول افرادی قوت و دیگر امور کو بھی سامنے لانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گوشت کی ایکسپورٹ کے لئے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا انتہائی ضروری ہے۔

 پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے چیف شماریات نعیم الظفرنے کہا کہ زرعی پالیسی ملک کی زرعی معیشت کی ایک جامع تصویر فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا ایک اہم حصہ ہے اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اور صوبائی سطح پر موثر پالیسی پلاننگ کے لیے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ممبر محمد سرور گوندل نے کہا کہ 1960سے اب تک زراعت کی 6، لائیوسٹاک کی 4، زرعی مشینری کی 5 جبکہ موضع کی9 زراعت شماریاں ہو چکی ہیں جبکہ انڈیا میں اب تک 11 مرتبہ زراعت شماری ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں آخری زراعت شماری 2010ء میں کی گئی تھی اور انہی کے ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں آبادی کی مردم شماری بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت شماری کا مقصد زراعت کے ڈھانچے کو غذائی استحکام کے لئے اعدادوشمار فراہم کرنا ہے تاکہ سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کے اہداف ترتیب دیئے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کی بنیاد پر اجناس، دودھ، گوشت اور افرادی قوت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔

اس موقع پر ممبر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اسلم جاوید، ڈپٹی ڈائریکٹر رابعہ اعوان و دیگر نے بھی خطاب کیا۔