اسلام آباد، 12جولائی(اے پی پی ):مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شخص کی موت پر اظہار الم کے ساتھ اسکے محاسن کو بیان کیا جاتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اردو میں مرثیہ کی صنف شہادت امام حسین اور واقعہ کربلا سے منسوب ہو گئی ہے اور اردو کے بہت سے نامور شعرا نے اس صنف میں لکھا اور بہت خوب لکھا جن میں انیس اور دبیر جیسے شہرہ آفاق شعرا بھی شامل ہیں ۔
مسملانوں کی واقعہ کربلا ، حضرت امام حسین اور ان کے رفقا سے قلبی وابستگی تو مسلم ہے ہی ، لیکن غیر مسلم شعرا نے بھی اس صنف میں اپنا کمال دکھایا اور تاریخی مرثیے کہے جن کو اردو ادب میں خاص مقام حاصل ہے ۔
غیر مسلم مرثیہ گو شعرا میں ایک اہم نام دلگیر کا ہے، چنو لال دلگیر کے بھائی راجو لال بھی شہدا کربلا کے بارے میں بہت عزت اور گہرے جذبات رکھتے تھے انھوں نے شہرہ آفاق مرثیہ ” گھبرائے گی زینب ” لکھا ہے – ٹھاکر گنج میں ان کا بنوایا گیا امام بارگاہ آج بھی ان کی اس وابستگی کی دلیل ہے۔منشی چنو لال دلگیر میر انیس سے بھی پہلے چار سو سترہ مرثیے لکھ چکے تھے ۔
دیگر غیر مسلم شعرا میں پنڈٹ ایسری پرشاد، پنڈت دہلوی، حکیم چھنو مل نافذ دہلوی، مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ، دلو رام کوثری، رائے سندھ ناتھ فراقی، نتھونی لال دھون وحشی، کنور سین مضظر، بشیشو پرشادمنور لکھنوی، نانک چند کھتری نانک، لال رام، پرشاد روپ کماری کنور، بشیشور پرشادس منور لکھنوی، ماتھر لکھنوی، لبھو رام جوش ملسیانی، گوپی ناتھ امن، باوا کرشن گوپال مغموم، نرائن داس طالب دہلوی، کشن بہاری نور لکھنوی،دگمبر پرشاد جین گوہر دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، رام راؤ، سیوا وشوناتھ پرشاد ماتھر لکھنوی، سوامی پرشاد، اصغر شری مکھن داس چند بہاری لال ماتھر، راجہ مہرا صبا جے پوری، گورو سرن لال، ادیب، پنڈت رگھو ناتھ سہائے امید، گردھاری لال، جوش ملیسانی، نانک چند عشرت، الفت لکھنوی، شفیق کرت پوری، نرائن داس طالب پانی پتی، راجہ بلون سنگھ، راجہ امر چند قیس، راجندر وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔